اسلام آباد: ( خاور گھمن) اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ایک فعال جمہوریت اور فعال اپوزیشن دونوں مربوط جمہوری نظام کیلئے لازم و ملزوم ہوتی ہیں بصورت دیگر جمہوریت اور ڈکٹیٹرشپ میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا۔ کہنے کو تو روس، مصر اور دوسرے کئی اس طرح کے ملکوں میں انتخابات ضرور ہوتے ہیں لیکن وہاں راج صرف ایک ہی پارٹی کرتی ہے۔ اپوزیشن برائے نام ہی ہوتی ہے۔ اسے عام حروف میں ون پارٹی رول کہتے ہیں۔
2018 ء کے انتخابات کے بعد پاکستان تحریک انصاف وفاق کیساتھ ساتھ، پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں اقتدار سنبھالنے میں کامیاب رہی۔ اسلام آباد میں عمران خان کو وزیر اعظم بننے کیلئے 342 میں سے 172 اراکین اسمبلی کی حمایت درکار تھی۔ اس وقت اتحادیوں کو ساتھ ملا کر حکومتی بینچز پر کل 178 ایم این اے موجود ہیں۔ لہٰذا حزب اختلاف کا محاذ شہباز شریف کی سربراہی میں (ن) لیگ اور پیپلزپارٹی نے مل کر سنبھالا ہوا ہے۔ دونوں جماعتوں کو ملا کر بظاہر ایک مضبوط اپوزیشن بنتی ہے۔ جبکہ سینیٹ میں ابھی تک اپوزیشن اکثریت میں ہے۔ اسی طرح پنجاب اسمبلی میں کسی بھی پارٹی کیلئے اقتدار حاصل کرنے کیلئے مطلوبہ درکار تعداد 186 ہوتی ہے۔ تحریک انصاف کے پاس پنجاب اسمبلی میں چند رکن ہی مطلوبہ تعداد سے زیادہ ہیں۔ اگر آج تحریک انصاف سے مسلم لیگ (ق ) پنجاب میں علیٰحدہ ہو جائے تو وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کیلئے شدید مسائل پیدا ہو جائیں گے۔ پھر ایسی کونسی وجہ ہے کہ اپوزیشن کہیں نظر نہیں آتی اور نہ ہی پاکستان کی موجودہ سیاست میں انکا کوئی کردار نظر آتا ہے۔
متحدہ اپوزیشن چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کیلئے ایک لا حاصل سعی کے چکر میں بری طرح ناکام ہوئی۔ اگر ہم اس وقت حزب اختلاف کی جماعتوں کے شتر بے مہار عمل کے پیچھے وجوہات تلاش کریں تو وہ ایک سے زیادہ سامنے آتی ہیں۔ اگر مسلم لیگ (ن ) کے کردار کی بات کریں تو نواز شریف کی غیر موجودگی میں پارٹی کا مورال ڈائون ہے۔ پارٹی قائد کی غیر موجودگی میں مریم صاحبہ نے پارٹی میں تھوڑی بہت جان ڈالنے کی کوشش ضرور کی لیکن دوبارہ پابند سلاسل ہو گئیں۔ اب یہاں سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ شہباز شریف تو پوری آب وتاب کیساتھ موجود ہیں پارٹی کے باقاعدہ صدر بھی ہیں وہ اپنا کردار کیونکر ادا نہیں کرپا رہے۔ شہباز شریف سے متعلق اطلاعات یہی آ رہی ہیں کہ وہ آجکل اپنی کمر درد ٹھیک کرنے میں مصروف ہیں ہماری دعا ہے وہ جلدی صحت یاب ہوں۔
لیکن حقیقت سے منہ نہیں چھپایا جا سکتا۔ شہباز شریف صاحب نے اتنا لڑ جھگڑ کر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی صدارت حاصل کی تھی لیکن وہ بھی عضو معطل کی صورت اختیار کیے ہوئے ہے۔ اس وقت مسلم لیگ (ن) کے پاس 84 اراکین اسمبلی موجود ہیں مجال ہے انہوں نے کسی تعمیری کام میں حصہ لیا ہو سوائے شور شرابے کے۔ پارٹی کے چند ارکان سے جب بات ہوئی تو ان کے مطابق انہیں انتہائی غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے۔ نواز شریف جیل میں موجود ہیں۔ ان کے حوالے سے متضاد خبریں آ رہی ہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں ڈیل ہو رہی ہے اور پارٹی قائدین ایک مرتبہ پھر ملک چھوڑنے کی بات کر رہے ہیں۔ خبریں یہ بھی منظر عام پہ آ رہی ہیں کہ شہباز شریف کا دوبارہ اسٹیبلشمنٹ کیساتھ رابطہ ہو گیا ہے۔ ہو سکتا ہے آنے والے دنوں میں کچھ آسانیاں پیدا ہو جائیں۔ اس سارے شور شرابے سے مسلم لیگ ( ن) پارٹی کے چاہے ایم این اے ہوں، سینیٹرز ہوں یا پھر کارکنان، ایک خاص قسم کی گو مگو صورتحال سے دوچار ہیں۔ جب تک گو مگو جیسی صورت حال بنانے والے تمام سوالات کے جوابات سامنے نہیں آجاتے تب تک پارٹی اسی طرح بغیر کسی سمت کے چلتی رہے گی۔
اب خبریں چودھری نثار کی واپسی کے حوالے سے بھی آ رہی ہیں۔ لہٰذا بہت ضروری ہے کہ شہباز شریف گوشۂ نشینی ختم کریں اگر بڑے بھائی نواز شریف کیساتھ اور پارٹی کیساتھ کھڑے ہونا ہے تو واضح بیان کیساتھ میدان میں اتریں۔ مریم صاحبہ کے’’ ووٹ کو عزت دو ‘‘کے بیانیے کو اگر آگے بڑھانا ہے تو ببانگ دہل بات کریں۔ اور اگر کسی نئے بیانیے کیساتھ سامنے آنا ہے تو اس کو سامنے لائیں نہیں تو پارٹی کو نا قابل تلافی نقصان ہو گا۔ دوسری طرف پیپلزپارٹی کی صورتحال تھوڑی مختلف ہے سندھ میں حکومت ہونے کیساتھ سینیٹ میں اکثریتی پارٹی کے طور پر موجود ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کافی حد تک پارٹی کا کنٹرول سنبھال چکے ہیں۔ پیپلزپارٹی کو موجودہ وقت میں سب سے بڑا مسئلہ آصف علی زرداری کے خلاف جعلی بنک اکائونٹس کا کیس ہے۔ ظاہری طور پر پیپلزپارٹی اپنے بھاری بھر کم وکلا ء کیساتھ یہ کیس اچھے طریقے سے لڑ رہی ہے لیکن زرداری صاحب کو لے کر بلاول، بختاور اور آصفہ پریشان ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری صاحب پی ٹی آئی کی حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ تو ضرور بناتے ہیں لیکن وہ کسی ایسے اقدام کی حمایت کرتے نظر نہیں آتے جس سے موجودہ نظام کو خطرہ ہو۔ ہمارے ذرائع کے مطابق چیئرمین سینیٹ کیخلاف تحریک عدم اعتماد ناکام کرانے میں پیپلز پارٹی کے بڑوں کا اپنا ہاتھ ہے۔ پیپلز پارٹی نہیں چاہتی کہ کوئی ایسا ماحول پیدا ہو جس سے موجودہ نظام تتر بتر ہو جائے۔ مولانا فضل الرحمن متحدہ اپوزیشن کے تیسرے بڑے ستون کے طور پر مانے جاتے ہیں۔ مولانا صاحب آجکل حکومت مخالف تحریک کو کامیاب کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔
اکتوبر کے مہینے میں مولانا صاحب اسلام آباد کی طرف ملین مارچ کا ارادہ رکھتے ہیں۔ مولانا صاحب کو اپنی کامیابی کا پورا یقین ہے ہزاروں کی تعداد میں زیر اثر مدارس میں موجود طالبعلموں کو استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن اس کیساتھ ساتھ مولانا صاحب کو تحریک کی کامیابی کیلئے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی بھی بھر پورمدد کی ضرورت ہو گی۔ مولانا صاحب کا عمران خان کی حکومت کو گھر بھیجنے پر مشتمل صرف ایک ہی ایجنڈا ہے۔ سب سے بڑا سامنے آنے والا سوال یہ ہے کیا موجودہ حالات میں ایسا کرنا ممکن ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کامیاب خارجہ پالیسی چلا رہے ہیں۔ کشمیر کا مسئلہ اس وقت نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے سامنے بڑا ایشو بن کر سامنے آیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہو گا کہ آنیوالے دنوں میں حزب اختلاف اکٹھی ہو گی یا پھر مزید انتشار کا شکار ہو گی ؟ موجودہ حالات کے تناظر میں لگتا یہی ہے کہ مولانا صاحب کو اپنی تحریک کیلئے ابھی تھوڑا انتظار کرنا پڑے گا۔