منظم مزاحمت خطے سے امریکا کو مستقل نکال سکتی ہے

Last Updated On 06 January,2020 08:54 am

لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) مسلح افواج کے ترجمان کی جانب سے آنے والے اس بیان کو پوری قوم کیلئے باعث اطمینان قرار دیا جا سکتا ہے جس میں انہوں نے پاکستان کی جانب سے اپنی سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان نے بڑی قربانیوں کے بعد امن حاصل کیا ہے۔ ایرانی کمانڈر قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ مائیک پومپیو کی مسلح افواج کے سربراہ سے ٹیلیفون کال کے بعد اس امر کی ضرورت تھی کہ پاکستان اس حوالہ سے اپنے واضح موقف کا اظہار کرتا اور قوم کو معلوم ہونا چاہئے تھا کہ اس نئی صورتحال میں پاکستان کا سٹینڈ کیا ہے۔

قومی ترجمان کے اس بیان سے کنفیوژن تو ختم ہوئی ہے لیکن اس امر کا جائزہ ضرور لیا جانا چاہئے کہ آخر یہ ساری صورتحال کیونکر طاری ہوئی ہے اور کیا یہ مسئلہ صرف مشرق وسطیٰ کا ہے یا یہ عالمی اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ امریکا کی جانب سے دباؤ کی ایک تاریخ ہے۔ پاکستان اس حوالہ سے دباؤ برداشت کر پائے گا اور مذکورہ حملہ کے بعد جنگ کے جو بادل منڈلا رہے ہیں اس میں پاکستان کو کس طرح بچا کر رکھا جا سکتا ہے۔ امریکا اور ایران کے درمیان چند سال قبل ہونے والے نیو کلیئر معاہدے کو صدر ٹرمپ نے آ کر توڑ دیا اور اب خطہ میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان ایک تناؤ کی کیفیت جاری ہے۔

پاکستان کے سعودی عرب سے دفاعی اور دیگر امور پر جذباتی تعلقات ہیں تو دوسری طرف ایران کو بھی اپنا ہمسایہ ملک سمجھتے ہوئے پاکستان نے ایران سے اپنے تعلقات قائم رکھنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ وزیراعظم عمران خان ملک کو درپیش اقتصادی مشکلات کے حوالہ سے اگر سعودی عرب اور ابوظہبی سے روابط مضبوط بناتے نظر آ رہے ہیں اور اقتصادی حوالہ سے انہوں نے پاکستان کی ممکنہ مدد بھی کی ہے تو دوسری جانب وزیراعظم عمران خان اپنے اقتدار میں دو دفعہ ایران کے دورے پر بھی گئے ہیں اور جنرل اسمبلی میں کشمیر کاز کے حوالہ سے ایران کی حمایت ہماری ڈپلومیٹک کوششوں کا نتیجہ ہے اور اب نئی پیدا شدہ صورتحال ایران اور سعودی عرب تنازع سے بہت آگے بڑھ چکی ہے اور اس میں ہم کسی جنگی فریق کے ساتھ اپنا وزن ڈالنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔

ماضی میں ایران عراق جنگ کے دوران بھی امریکی دباؤ کے باوجود پاکستان نے اپنا غیر جانبدارانہ کردار برقرار رکھا اور اس کے بعد براہ راست ایران سعودی عرب تنازعات میں بھی نواز شریف حکومت اور موجودہ حکومت نے اپنا وزن کسی ایک کے ساتھ ڈالنے کی بجائے ان کے درمیان تناؤ کی کمی کیلئے اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کی اور دونوں ممالک نے اپنے درمیان کشمکش کے باوجود پاکستان کو فریق نہیں سمجھا لہذا اب ہنگامی بنیادوں پر پیدا شدہ نئی صورتحال میں ضرورت اس امر کی تھی کہ پاکستانی قیادت یہ اعلان کرتی کہ امریکا کی جانب سے براہ راست ایرانی کمانڈر کو ٹارگٹ کرنے کا عمل درست نہیں تھا اور اس تنازع میں ہم کسی کے ساتھ فریق بننے کی بجائے اپنے مفادات کو یقینی بنائیں گے اور کوشش کریں گے کہ خطہ جنگ میں ملوث نہ ہو۔

اچھا ہوا کہ یہ کردار فوجی ترجمان نے بروقت ادا کر دیا کیونکہ ماضی میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ نو گیارہ کے واقعات کے بعد امریکا نے افغانستان پر حملہ کیلئے براہ راست پاکستان کو دھمکی دے کر اسے اپنے ساتھ شریک کر لیا تھا اور تاریخ کا یہ باب خود ہمارے لئے ہمیشہ شرمندگی کا باعث رہے گا لہٰذا اب خطہ میں پیداشدہ نئی صورتحال اس امر کی متقاضی ہے کہ پاکستان اس صورتحال میں اپنا غیر جانبدارانہ کردار ادا کرے اور دنیا کو یہ باور کرائے کہ جنگیں مسائل کا حل نہیں بلکہ تباہی کا باعث ہیں اور امریکا طاقت اور قوت کے استعمال کے ذریعہ جو مسائل حل کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے وہ اس کیلئے خطرناک ہو سکتی ہے لہٰذا اب ضرورت اس امر کی ہے کہ فوجی ترجمان کی جانب سے آنے والے حقیقت پسندانہ اور جرات مندانہ بیان کے بعد اس پالیسی پر مبنی پارلیمنٹ کے اندر قرارداد آنی چاہئے تاکہ دنیا اسے پاکستان کی پالیسی سمجھے۔

جہاں تک اس امر کا سوال ہے کہ آخر نئی پیدا شدہ صورتحال پر فوجی ترجمان کی جانب سے یہ پالیسی بیان کیوں آیا۔ اچھا ہوگا کہ اس کا اظہار خود وزیراعظم عمران خان یا وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کرتے لیکن حقائق یہی ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف پاکستانی فوج کے اہم کردار کے باعث ان کی اہمیت بین الاقوامی سطح پر بھی ہے اور پہلے مائیک پومپیو نے بھی ٹیلیفون کال وزیراعظم عمران خان کی بجائے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو کی تھی۔ جو کچھ کہا گیا تھا یا جو وہ کہنا چاہتے تھے اس کا جواب آنا چاہئے تھا اور اس وجہ سے جواب بھی فوجی ترجمان کی جانب سے آیا اور اب ہمیں اس پالیسی پر گامزن رہنا چاہئے۔

امریکا اپنی روایتی پالیسی پر گامزن رہتے ہوئے پاکستان کو ساتھ ملانے اور استعمال کرنے کیلئے دباؤ بڑھائے گا لیکن اس پالیسی پر قائم رہنے کیلئے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اتفاق رائے ہونا چاہئے۔ پالیسی کو پارلیمنٹ کی تائید و حمایت بھی حاصل ہونی چاہئے اور خصوصاً عوامی سطح پر نئی صورتحال کے حوالہ سے یکسوئی نظر آنی چاہئے کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان ایسے کسی تنازع میں الجھنے کا متحمل نہیں ہو سکتا جس میں سعودی عرب اور ایران فریق ہوں۔ یہ پاکستانی قوم کا بہت بڑا مثبت اعزاز ہے کہ خطہ میں ہونے والی پراکسی وار کے اثرات بھی عوامی سطح پر کسی تقسیم کا ذریعہ نہیں بنے اور سب نے اس حوالہ سے پاکستانی سوچ اور اپروچ کا مظاہرہ کیا جہاں تک جنرل قاسم سلیمانی کو ٹارگٹ کرنے کا سوال ہے تو یہ امریکا کی مضبوطی نہیں، بوکھلاہٹ کو ظاہر کرتا ہے اور یہ ایران کے خلاف امریکا اور اسرائیل کی جارحانہ اشتعال انگیزیوں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے اور اپنی ان ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کیلئے چند روز قبل پہلے مرحلہ پر عراق میں امریکا مخالف مظاہروں اور پھر بغداد میں اپنے سفارتخانے پر مظاہرین کے حملے کو جواز بنایا گیا اور ایک بنیاد بنانے کیلئے کہا گیا کہ ان مظاہروں میں امریکی پرچم نظر آتش کئے گئے۔

وزارت خارجہ کی جانب سے آنے والا یہ بیان بھی اہمیت کا حامل ہے کہ پاکستان ایک متوازن اور محتاط رویہ رکھے گا اور اس کے بعد صدر ٹرمپ کی تازہ ترین وارننگ کے بعد کیا خطرات ٹل جائیں گے ؟ یقیناَ ایسا نہیں ہے ۔ ایران ہر صورت ردعمل دے گا اور اپنی مرضی اور صلاحیت کا میدان چنے گا۔ اگر ایران خاموش رہا تو پھر اس کے مشرق وسطیٰ میں سنگین ترین نتائج نکلیں گے، جو آگے چل کر ایران کے سٹریٹجک مفادات کو شدید نقصان پہنچائیں گے۔ ایران کی خاموشی کے اثرات پھر شام میں دیکھنے کو ملیں گے۔ اس خاموشی سے یمن میں صورتحال ایران مخالف قوتوں کے ہاتھ آ جائے گی۔ سب سے بڑھ کر اس کے ہمسایہ ملک اور روحانی مرکز عراق میں ایرانی مفادات فارغ ہو جائیں گے۔ میرا نہیں خیال کہ ایران امریکی وار مشینری سے خوفزدہ ہو کر خاموش رہنے کا فیصلہ کرے گا کیونکہ ایران، یمن اور سب سے بڑھ کر شام میں امریکی منصوبہ سازوں کو ناکوں چنے چبوا چکا ہے اور امریکا کے مقابلے میں مشرق وسطیٰ میں بہتر انٹیلی جنس، بہتر حلیف اور سب سے بڑھ کر جغرافیہ کو اپنے حق میں استعمال کر چکا ہے۔ ان حقائق سے ہٹ کر ایک تاریخی حقیقت بھی ہمیں نہیں بھولنی چاہئے کہ امریکی تو بعد میں ایک قوم بنے مگر ایران صدیوں پرانی ایک متحد قوم ہے جسے اپنے رنگ و نسل اور جغرافیے پر فخر ہے اور اس لیے آج بھی عالم عرب سے ذرا فاصلے پر اسی قومیت پرستی کی بنیاد پر کھڑا ہے۔

امریکی حملے کے بعد اور مزید تازہ ترین دھمکیوں کے بعد امریکا مخالف جذبات ایرانی ریاست کے حق میں ہو گئے ہیں اور روس کے ساتھ معاشی سپر پاور چین بھی خاموش ضرور ہیں مگر اندر سے ایرانی ردعمل کے منتظر ہوں گے کیونکہ ایک منظم مزاحمت خطے سے امریکا کو مستقل طور پر نکال سکتی ہے۔ ان حملوں کے بعد ایک اور بھرم بھی کھل چکا ہے کہ عالم اسلام نامی کوئی بھی چیز عملاً نظر نہیں آرہی۔ یہ وہ بت ہے جس میں جان صرف سعودی شاہی خاندان ڈالتا ہے اور جب چاہے جس کے حق میں چاہے اس مردہ گھوڑے میں جان ڈال دیتا ہے۔
 

Advertisement