لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی ) سفارتی محاذ پر اہم پیش رفت ہو رہی ہے کہ ترک صدر طیب اردوان کے دورہ پاکستان کے اگلے روز اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرس تین روزہ دورہ پر پہنچ رہے ہیں۔ یہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے، جب کشمیر میں بھارت کے سفاک کرفیو کو 195 روز ہوگئے ہیں ، جبکہ لائن آف کنٹرول پر کشیدگی ہے۔ اس تناظر میں یہ دورہ غیر معمولی اہمیت کاحامل ہے۔
پاکستان دنیا کو خطے کی صورتحال سے آگاہ رکھنے کیلئے ہر آپشن استعمال کر رہا ہے، اس حوالے سے سفارتی حلقے یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ بھارت کو یہ سب کچھ ہضم نہیں ہو پا رہا، وہ اس صورتحال سے توجہ ہٹانے کیلئے کچھ بھی کر سکتا ہے۔ خود وزیراعظم عمران خان نے بیرونی محاذ پر بھارتی قیادت کے انتہا پسندانہ طرز عمل، ان کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں اختیار کئے جانے والے غیر انسانی اقدامات کو دنیا کے سامنے رکھا ہے۔ علاقائی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ بھارت نے اپنے جارحانہ عزائم کے باعث نہ صرف خطے کو متاثر کر ر کھا ہے بلکہ خود مقبوضہ کشمیر اور بھارت کے اندر سلگتے ایشوز پر ریاستی دہشت گردی کی بدترین مثالیں قائم کر رہا ہے جس کا نوٹس لیا جانا ضروری ہے۔
اقوام متحدہ پر امریکی اثر و رسوخ کے باوجود پھر بھی عالمی ادارے کی اپنی ایک اہمیت ضرور ہے جس کا اعتراف کیا جاتا ہے اور اس کی جانب سے تحفظات کے اثرات نظر آتے ہیں۔ متعلقہ ممالک اس کا دباؤ قبول کرتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہوگی کہ پاکستان اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے سامنے کشمیر میں پیدا شدہ صورتحال، بھارت کے جارحانہ عزائم اور خصوصاً بھارت کے اندر اقلیتوں سے روا رکھے جانے والے سلوک پر کس طرح اپنا کیس پیش کرتا ہے اور انہیں یہ باور کرانے میں کامیاب رہتا ہے کہ پاکستان نے سکیورٹی کونسل کی اپیل پر سیز فائر کر کے جو تباہ کن غلطی کی تھی جس کی سزا وہ آج تک بھگت رہا ہے، کبھی اقوام متحدہ نے بھی اس کا جائزہ لیا اور اقوام متحدہ کے حوالے سے پاکستان کے طرز عمل کو کتنا وزن دیا۔
کیا اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے سامنے یہ سوال اٹھایا جا ئےگا کہ سیز فائر لائن پر اقوام متحدہ کا جو سسٹم آج تک موجود ہے، کیا اس کا کردار دوسری جانب مقبوضہ کشمیر میں بھی ہے اور اقوام متحدہ یہاں پر روا رکھی جانے والی خلاف ورزیوں کے عمل کو کیسے دیکھتا ہے۔ کیونکہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے پاس دنیا میں کہیں بھی امن کو شدید خطرات کی طرف سلامتی کونسل کے اراکین کی توجہ دلانے کا اختیار موجود ہے۔ وہ اسے بروئے کار لائیں گے، خطہ میں جنگی خطرات ، مقبوضہ وادی میں کشمیریوں کی نسل کشی اور ریاستی دہشت گردی کے ارتکاب پر عالمی قوتوں کو اپنی تشویش سے آگاہ کر پائیں گے۔
دوسری جانب یہ حقائق بھی مد نظر رکھے جانے چاہئیں کہ گزشتہ چھ ماہ میں سلامتی کونسل میں مقبوضہ کشمیر کی انسانی صورتحال پر بلائے جانے والے دونوں اجلاس اقوام متحدہ کی کسی تحریک یا ادراک پر نہیں بلکہ چین کی موثر کوششوں کے باعث ممکن ہوئے، ہیومن رائٹس کمیشن کی رپورٹس، جینوسائیڈ واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ نے بھی مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر بار بار تشویش ظاہر کرتے ہوئے وہاں بنیادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی نشاندہی کی تھی۔ خود برطانوی پارلیمنٹ ، یورپی یونین اور امریکی کانگریس میں مسئلہ کشمیر زیر بحث آیا۔ اس کی اہمیت کو تسلیم کیا گیا، دنیا میں مقبوضہ وادی اور کشمیریوں کے خلاف ہونے والی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر تشویش پائی جاتی ہے اور اس تشویش اور ردعمل کا کس حد تک اقوام متحدہ کا ادارہ نوٹس لے پایا ہے، اگر اب تک کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو اقوام متحدہ کا کردار کوئی قابل رشک نہیں اور یہ بعض عالمی قوتوں خصوصاً امریکی مفادات کے تابع ہی سرگرم نظر آیا ہے سیکرٹری جنرل کو یہ ضرور بتایا جانا چاہیے کہ پاکستان نے اقوام متحدہ کے کردار اور ساکھ کیلئے جو قربانی دی اس کے نتیجہ میں اسے کیا ملا ؟۔