کورونا پر حکومت اپوزیشن تقسیم، نقصان کس کا ہوگا ؟

Last Updated On 01 April,2020 08:54 am

لاہور: (تجزیہ:سلمان غنی) ملکی سیاسی تاریخ میں کسی بھی بڑے بحران، طوفان، آفت یا وبا میں پوری قوم اپنے تمام تر اختلافات، تعصبات سے بالاتر ہو کر، مل کر اس کا مقابلہ کرتی آئی ہے اور سرخرو ہوئی ہے۔ کورونا آفت کے حوالہ سے پیداشدہ خدشات اور خطرات میں بھی یہی توقع ظاہر کی جا رہی تھی کہ قومی قیادت ہر طرح کے اختلافات سے بالاتر ہو کر اس وبا اور بلا سے نمٹنے کیلئے یکسو متحد اور سنجیدہ ہوگی اور اس مشکل صورتحال میں کورونا کے خلاف جنگ میں سرخرو ہو پائے گی، لیکن بدقسمتی سے ملک میں پولرئرآیزیشن اس انتہا پر ہے کہ اپوزیشن کی بڑی قیادت شہباز شریف، بلاول بھٹو زرداری، فضل الرحمن، اسفند یار ولی اور سراج الحق سمیت دیگر نے حکومت کو اپنے ممکنہ تعاون کا یقین دلایا اور کورونا جیسی جان لیوا وبا کے خلاف قومی اتفاق رائے پر زور دیا مگر شاید وزیراعظم عمران خان کو اپوزیشن سے ملنا گوارا نہیں۔ انہوں نے اپوزیشن کی اس پیشکش کا مثبت جواب دینے کے بجائے ان کے ساتھ مل بیٹھنا بھی گوارا نہ کیا اور سپیکر اسد قیصر کی جانب سے بلائے جانے والے پارلیمانی لیڈرز کے اجلاس میں اپنے وفد سے خطاب کے بعد آف لائن ہو گئے جس پر اپوزیشن قیادت خصوصاً شہباز شریف، بلاول بھٹو زرداری نے اس کا بائیکاٹ کیا اور وزیراعظم عمران خان کے اس طرزعمل پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ رویہ کسی طور بھی مناسب نہیں۔

اپوزیشن نے اس پر شدید ردعمل کے اظہار کے بجائے پھر بھی ذمہ دارانہ کردار ادا کرتے ہوئے کورونا سے نمٹنے کیلئے حکومت کیلئے تجاویز و آرا کا سلسلہ جاری رکھا اور اب وزیراعظم کی جانب سے ریلیف فنڈز کی تقسیم اور متاثرین کی نشاندہی کیلئے ٹائیگر فورس کے قیام سمیت دیگر اقدامات کے ذریعہ ظاہر کیا کہ وہ اس کی بحرانی کیفیت سے نمٹنے کیلئے سولو پرواز پر یقین رکھتے ہیں اور حکومت اس میں کامیاب ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ جواباً اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے گزشتہ روز بلاول بھٹو زرداری، مولانا فضل الرحمن، سراج الحق، محمود خان اچکزئی، حاصل بزنجو، آفتاب شیر پاؤ سمیت دیگر سے رابطے کئے اور ان سے مشاورت کے ساتھ بنے حالات میں کورونا سے نمٹنے کیلئے بعض اقدامات اور نکات پر اتفاق کیا جن میں پارلیمانی مانیٹرنگ کمیٹی کی تشکیل، کورونا کے حوالہ سے آنے والی عالمی امداد کے استعمال، پارلیمنٹ کی ہیلتھ کمیٹی کے اجلاس بلانے، پی ایم ڈی سی کو بحال کرنے، اس کے فعال کردار، ڈاکٹرز ، نرسز کو طبی آلات کی فراہمی، کورونا سے نمٹنے کیلئے آگاہی مہم سرکاری ہسپتال میں ضروری سہولتوں کی فراہمی سمیت کورونا ٹائیگر فورس کے قیام کو مسترد کرنے پر زور دیا۔

حکومت کورونا پر اقدامات کو اپنے لئے پوائنٹ سکورنگ کا ذریعہ بنائے گی تو اپوزیشن اس ایشو پر حکومت کو ہر سطح پر ایکسپوز کرتی دکھائی دے گی اور اس ساری کیفیت میں اصل نقصان متاثرین کا ہوگا۔ سیاسی حوالہ سے صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو کورونا کے طوفان میں وزیراعظم عمران خان کے پاس بڑا موقع تھا کہ وہ وزیراعظم ہونے کے ساتھ قومی لیڈر کا کردار ادا کرتے ۔ جب قوم ان کے دائیں طرف شہباز شریف اور بائیں طرف بلاول بھٹو زرداری کو کھڑا دیکھتی اور مل جل کر اٹھائے جانے والے اقدامات کا اعلان ہوتا تو مشکل کی اس صورتحال میں قوم کے اندر ایک جذبہ ولولہ پیدا ہوتا۔ زیادہ موثر اور مضبوط انداز میں اس وبا کے خاتمہ کیلئے ماحول بنتا مگر افسوس وزیراعظم عمران خان نے یہ بڑا موقع گنوا دیا۔ بنیادی ذمہ داری حکومت کی تھی کہ وہ اس حوالہ سے آگے بڑھتی اور سیاسی جماعتوں سمیت تمام طبقات کا اعتماد حاصل کرتی۔ اس ساری صورتحال میں قیادت وزیراعظم عمران خان کے پاس ہی ہوتی۔ حکم بھی انکا چلتا مگر اس حکم اور احکامات کے پیچھے تائید و حمایت پوری قوم کی ہوتی۔ پھر وزیراعظم عمران خان مخیر حضرات کو بلاتے اور اس مشکل گھڑی میں ان سے اپنا کردار ادا کرنے کی اپیل کرتے۔ وبائیں اور بلائیں صرف بیکٹیریا اور وائرس کی صورت میں نہیں ہوتیں۔ کچھ وبائیں اخلاقی، سیاسی اور نفسیاتی بھی ہوتی ہیں۔ ان میں سب سے خطرناک خود پسندی ہے اور اگر یہ ہماری لیڈرشپ میں ہو تو اس کے اثرات ملک کو غیر مستحکم اور قوم کو تقسیم کر ڈالتے ہیں اور اس کے نتائج سب کو بھگتنا پڑتے ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کشمکش اور محاذآرائی کی صورتحال کا آج نہ ملک متحمل ہو سکتا ہے نہ قوم اور نہ کورونا کے متاثرین۔ یہی وجہ ہے کہ آج ایک پریشان اور تشویش کورونا کی وبا اس کے اثرات اور اس کے نتائج کے حوالہ سے ہے اور دوسری بڑی پریشانی ملک کے اندر حکومت اور اپوزیشن میں جاری کشمکش کی صورتحال پر ہے۔ الخدمت فاؤنڈیشن، اخوت اور دیگر سماجی ادارے ہر طرح کی سیاست سے بالاتر اپنا کام کرتے نظر آ رہے ہیں۔ حکومت کا زور فی الحال ٹائیگر فورس پر ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ابھی سے سیاسی مخالفین کے مذکورہ فورس کے حوالہ سے تحفظات سامنے آ رہے ہیں۔
 

Advertisement