اسلام آباد: (دنیا نیوز) وزیراعظم عمران خان کے زیر صدارت قومی رابطہ کمیٹی کا اجلاس منگل کے روز دوبارہ بلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس میں قومی سطح کے اہم فیصلے کیے جائیں گے۔
ذرائع کے مطابق قومی رابطہ کمیٹی اجلاس میں کورونا وائرس وبا کی موجودہ اور متوقع صورتحال پر تفصیلی غور کیا گیا۔ صوبائی وزرائے اعلیٰ نے لاک ڈاؤن سے متعلق اپنی تجاویز پیش کیں۔
کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر نے ملک کی مجموعی صورتحال کی روشنی میں اپنی سفارشات کمیٹی میں پیش کیں۔ اجلاس میں وفاق اور صوبوں نے لاک ڈاؤن سے متعلق یکساں پالیسی پر اتفاق کیا۔
یہ بھی پڑھیں: ’لاک ڈاؤن بڑھانے کا فیصلہ نیشنل کوآرڈینیشن کمیٹی اجلاس میں کیا جائیگا‘
خیال رہے کہ گزشتہ روز وزیر صحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد نے کہا تھا کہ صوبے میں لاک ڈاؤن کو مزید بڑھانے کا فیصلہ نیشنل کوآرڈینیشن کمیٹی کے اجلاس میں کیا جائیگا۔
ڈاکٹر یاسمین راشد نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ صوبہ پنجاب کے قرنطینہ سینٹرز میں سب سے زیادہ افراد کورونا وائرس کا شکار ہو رہے ہیں۔ متاثر ہونے والے زیادہ علاقوں میں لاہور، گوجرانوالہ، گجرات، راولپنڈی اور جہلم ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ متاثرہ علاقوں کے لاک ڈاؤن میں نرمی نہیں کی جائیگی۔ جی ٹی روڈ بیلٹ پر کورونا وائرس کے کیسز کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ پنجاب میں اب تک چھتیس ہزار مشتبہ مریضوں کے تشخیصی ٹیسٹ کئے جا چکے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان نے جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ کورونا وائرس کے تشخیصی ٹیسٹ کئے۔ پنجاب میں کورونا وائرس کے تین سو کے قریب کنفرم مریض صحتیاب ہو کر اپنے گھروں کو واپس جا چکے ہیں۔
صوبائی وزیر صحت نے بتایا کہ لاہور کے بعض علاقوں کو کورونا وائرس کے کیسز بڑھنے پر مکمل سیل کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ سبزی منڈیوں میں افراد کے تشخیصی ٹیسٹ کروائے جا رہے ہیں۔
انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں گھروں میں رہ کر حکومت کا ساتھ دیں۔ کورونا وائرس کے خلاف جنگ ہمیں سب کو مل کر لڑنا ہوگی۔
یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس: وزیراعلیٰ سندھ کا لاک ڈاؤن مزید 14 دن کیلئے بڑھانے کا مطالبہ
ادھر وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے لاک ڈاؤن مزید 14 دن کیلئے بڑھانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ جن سیکٹرز کو کھولنا ہے، اس کا ایس او پی دیں، عملدرآمد کرائیں گے۔
تفصیل کے مطابق وزیراعلیٰ سندھ نے وزیراعظم عمران خان کے زیر صدارت ہونے والے قومی رابطہ کمیٹی اجلاس میں ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی اور کورونا وائرس کے حوالے سے سندھ کی صورتحال سے آگاہ کیا۔
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ اس اہم صورتحال میں ہماری قومی پالیسی ہونی چاہیے۔ فیصلے وزیراعظم کی طرف سے آنے چاہیں، ہم سب مانیں گے۔ صوبے میں کورونا کیسز کی تعداد بڑھ رہی ہے، ہمارے لوگ مر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ لاک ڈاؤن نہیں بڑھانا تو یہ بھی فیصلہ وزیراعظم کی جانب سے آنا چاہیے۔ آپ جو شعبے کھولنا چاہتے ہیں، وہ ایس او پیز ہمیں بھی دیں۔ کل آپ ہی اعلان کریں، جو آپ چاہیں گے، ہم عملدرآمد کرینگے۔
مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ جن لوگوں کو نقدی دے رہے ہیں، ان سے 14 دن گھروں میں رہنے کی گارنٹی لیں۔ اس کے علاوہ فوڈ آئٹمز کی ایکسپورٹ پر پابندی لگ جانی چاہیے۔ اگر ہم سرپلس بھی ہوں تو بھی ایکسپورٹ روک دیں۔
یہ بھی پڑھیں : پندرہ اپریل کے بعد کیا کرنا ہے؟ فیصلہ سب کی مشاورت سے ہوگا: اسد عمر
وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا ہے کہ 15 اپریل کے بعد کیا کرنا ہے؟ یہ فیصلہ منگل کو قومی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں ہوگا۔ تاہم کوشش ہوگی کہ فیصلے وفاق اور صوبوں کی مشاورت سے ہوں۔
اسلام آباد میں ڈاکٹر ظفر مرزا کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ نیشنل کمانڈ سینٹر کی بھی میٹنگ ہوگی جس میں تمام وزرائے اعلیٰ اجلاس میں شرکت کرینگے، کوشش ہے تمام فیصلے مشاورت سے ہوں۔
اسد عمر کا کہنا تھا کہ بحثیت قوم پاکستانیوں نے ذمہ داری کا مظاہرہ کیا جس کے اچھے نتائج آرہے ہیں۔ صوبائی اور وفاقی حکومت نے بروقت فیصلے کیے۔ پاکستان کے بروقت فیصلوں کی پذیرائی ہو رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹریکنگ کا نظام پر بھی بہت اچھا کام ہو رہا ہے جبکہ ٹیسٹنگ قابلیت بڑھانے کے لئے ہم نے بہت زور دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جو کاروبار چلا رہے ہیں ان کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ ملازمین کی صحت کا خیال رکھیں، اس کیلئے قانون سازی بھی زیر غور ہے۔
اس موقع پر معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے بتایا کہ اس وقت پاکستان میں کورونا وائرس کے 5374 کنفرم کیسز ہیں۔ ان کیسز میں 52 فیصد مقامی ہیں۔ باہر سے آنے والے متاثرین کو ہم نے سب سے پہلے روکنے کے انتظامات کیے، اب مقامی سطح پر وبا پھیلنے سے ہمیں روکنا ہے۔
ڈاکٹر ظفر مرزا نے بتایا کہ کورونا وائرس کی تشخیص صرف لیبارٹری کے ذریعے ہوتی ہے۔ شروع میں ہم نے چار جگہوں پر ٹیسٹ شروع کیے تھے، اس وقت 27 لیبارٹریز میں ٹیسٹ ہو رہے ہیں، آنے والے دنوں میں ان لیبارٹریز کی تعداد 34 تک پہنچ جائے گی۔
انہوں نے بتایا کہ شبانہ روز محنت کی وجہ سے ہم چند دنوں میں ہم حفاظتی سامان بنانے میں خود کفیل اور تقریباً 1 لاکھ کے قریب روزانہ این 95 ماسک بنانے کے قابل ہو جائیں گے۔ ہم نے فرنٹ لائن ورکرز کو ترجیحی بنیادوں پر سامان پہنچا دیا ہے۔