کراچی: (دنیا نیوز) حکومت سندھ نے عزیر بلوچ، نثار مورائی اور سانحہ بلدیہ کی تحقیقات کیلئے بنائی گئی جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم کی رپورٹ کو پبلک کر دیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ وفاقی وزیر علی زیدی کچھ عرصے سے تینوں جے آئی ٹیز کو پبلک کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے جس کے بعد سندھ حکومت نے عزیر بلوچ، بلدیہ ٹاؤن فیکٹری اور نثار مورائی کی رپورٹس کو عام کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔
جے آئی ٹی میں نثار مورائی کے اہم انکشافات دنیا نیوز نے حاصل کر لیے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دو ہزار دس میں ذوالفقار مرزا نے دو افراد کے ساتھ سرجانی میں زمینوں پر قبضے کا کام شروع کیا۔ دونوں افراد میں ظفر فریدی اور ڈی ایس پی جاوید عباسی شامل ہیں۔
زمین پر قبضے سے کمائی گئی رقم سے نثار مورائی کو 8 کروڑ روپے ملے۔ نثار مورائی نے ایک کروڑ 8 لاکھ کی بلٹ پروف گاڑی ذوالفقار مرزا کو دی۔
نثار مورائی نے 2008ء کے انتخابات میں ذوالفقار مرزا کی کمپین میں حصہ لیا۔ استعفے کے بعد دو ہزار گیارہ میں ذوالفقار مرزا نے آصف زرداری سے ملنے کی خواہش کی۔ ملاقات کرنے سے آصف علی زرداری نے معذرت کرلی۔
ملزم نے ذوالفقار مرزا کے ہمراہ سینٹرل جیل کراچی میں آفاق احمد سے ملاقات کی۔ ذوالفقا مرزا نے 2010ء میں دو بار آفاق احمد کو بھاری رقم ادا کی۔
یہ بھی پڑھیں: سندھ حکومت کا عزیر بلوچ، نثار مورائی، بلدیہ ٹاؤن جے آئی ٹیز پبلک کرنے کا اعلان
سندھ حکومت نے تینوں جے آئی ٹیز پبلک کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ عزیر بلوچ کی جے آئی ٹی میں آصف زرداری اور فریال تالپور کا ذکر نہیں ہے۔
سندھ حکومت کے ترجمان مرتضیٰ وہاب کا پریس کانفرنس میں کہنا تھا کہ تینوں جے آئی ٹیز رپورٹس سندھ حکومت پبلک کرنے جا رہی ہے۔ انھیں پیر کے روز ہوم ڈیپارٹمنٹ کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کر دیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ عزیر بلوچ، نثار مورائی، بلدیہ ٹاؤن کی جے آئی ٹیز کے حوالے سے وفاقی علی زیدی بہت دنوں سے پریس کانفرنسز کر رہے ہیں۔ انہوں نے سیاسی پوائنٹ سکورننگ کیلئے جو واویلا مچایا اس کا رپورٹ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ انہوں نے ایوان میں جھوٹ بولا، انہیں استعفیٰ دینا چاہیے۔ ہم صرف ریکارڈ کی درستگی کیلئے جے آئی ٹیز پبلک کر رہے ہیں، نہیں چاہتے کہ اس میں ملوث افراد چوکنا ہو جائیں۔
مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ علی زیدی نے پیپلز پارٹی قیادت پر الزامات لگائے اور پی آئی اے پر بھی بات کی۔ انھیں کھلا چیلنج کرتا ہوں کہ جے آئی ٹی رپورٹ میں کہیں آصف علی زرداری کا نام دکھائیں۔ پی ٹی آئی اخلاقیات کی بات کرتی تھی، اس آدمی میں اتنی اخلاقی جرات ہونی چاہیے کہ استعفیٰ دے کر گھر چلا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی ایک خاص بات ہے وزیر اپنے متعلقہ محکمے پر بات نہیں کرتے۔ پی آئی اے پر وزیر ہوا بازی بات کریں تو سمجھ بھی آتا ہے۔ ایل این جی پر ماضی میں بہت بڑا سکینڈل بنایا گیا۔ ایل این جی منصوبہ پورٹ قاسم میں بنا ہے کبھی اس پر بات کی؟ چیئرمین کے پی ٹی کا سکینڈل سامنے آیا، علی زیدی نے کبھی اس سوالات کا جواب نہیں دیا۔ صرف سیاسی مقاصد حاصل کرنے کیلئے اسمبلی میں تقاریر کی جاتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: عزیر بلوچ کے کارناموں کی جے آئی ٹی رپورٹ منظر عام پر آ گئی
خیال رہے کہ کراچی کے علاقے لیاری کا بے تاج بادشاہ کہلانے والے عزیر بلوچ کے کارناموں کی جے آئی ٹی رپورٹ گزشتہ دنوں منظر عام پر آ گئی تھی۔
جے آئی ٹی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عزیر بلوچ نے لسانی اور گینگ وار تنازع میں تمام افراد کو قتل کیا۔ اس نے اثرورسوخ کی بنیاد پر 7 ایس ایچ اوز تعینات کروائے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ عزیر بلوچ نے اقبال بھٹی کو ٹی پی او لیاری تعینات کروایا جبکہ 2019ء میں محمد رئیس کو ایڈمنسٹر لیاری لگوایا۔ ملزم کے بیرون ملک فرار کے باوجود ماہانہ لاکھوں روپے بھتہ دبئی بھیجا جاتا رہا۔
دو ہزار اٹھ سے دو ہزار تیرہ کے دوران مختلف ہتھیار خریدنے کا انکشاف بھی جے آئی ٹی رپورٹ میں سامنے آیا ہے جبکہ ملزم کے متعدد افراد کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہونے کا بھی بتایا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بلدیہ ٹاؤن فیکٹری میں آتشزدگی حادثہ نہیں، دہشتگردی تھا: جے آئی ٹی رپورٹ
ادھر بلدیہ ٹاؤن فیکٹری سانحے کی تحقیقات کیلئے بنائی گئی جوائنٹ انوسٹی گیشن (جے آئی ٹی) کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2012ء میں پیش آتشزدگی کا یہ واقعہ دہشتگردی تھا۔
سانحہ بلدیہ فیکٹری کی جے آئی ٹی رپورٹ 27 صفحات پر مشتمل ہے جس میں کہا گیا ہے کہ آگ 20 کروڑ روپے بھتہ نہ دینے پر لگائی گئی تھی۔ فیکٹری سے بھتہ ایم کیو ایم کے حماد صدیقی اور رحمان بھولا نے مانگا تھا۔
رپورٹ کے مطابق واقعے کے مقدمے اور تحقیقات میں ملزمان کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کی گئی۔ دہشتگردانہ کارروائی کو ایف آئی آر میں پہلے قتل کہا گیا، پھر حادثہ قرار دے دیا گیا۔
ابتدائی تحقیقات میں ایف آئی آر یا تفتیش میں کہیں بھتے کا ذکر نہیں کیا گیا۔ جے آئی ٹی نے گزشتہ ایف آئی آر واپس لینے اور دہشتگردی کی دفعات کے تحت نیا مقدمہ درج کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔
جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم نے ایف آئی آر میں رحمان بھولا، حماد صدیقی اور زبیر چریا اور دیگر افراد کے نام ڈالنے کی سفارش کی ہے۔
رپورٹ میں مقدمے کے مفرور ملزمان کو بیرون ملک سے واپس لانے، تمام ملزمان کے پاسپورٹ منسوخ کرنے اور نام ای سی ایل میں ڈالنے کی بھی سفارش کی گئی ہے۔
اس کے علاوہ جے آئی ٹی رپورٹ میں واقعے کے تمام گواہوں کو تحفظ فراہم کرنے کی سفارش کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ فیکٹری مالکان سے بھتہ کےعوض خریدا گیا حیدر آباد کا 1 ہزار گز بنگلہ واپس مالکان کو دیا جائے۔
جے آئی ٹی رپورٹ میں واقعے کے تناظر میں پولیس کے کردار پر بھی کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پولیس ہائی پروفائل واقعے کی درست سمت میں تحقیقات میں ناکام ہوئی۔ مستقبل میں ایسے واقعات میں تفتیش کی ناکامی کو روکنے کے لیے اصلاحات کرنے کی ضرورت ہے۔