نیویارک: (اے پی پی) پاکستان نے کہا ہے کہ بھارت کشمیر پر سلامتی کونسل کی قراردادوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی کے باعث اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن بننے کا اہل نہیں ہے۔
اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں اس موقف کا اعادہ کیا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ارکان میں اضافہ کے لئے نئے مستقل اراکین میں بھارت کو شامل کرنے کی بھرپور مخالفت کی جائے گی کیونکہ بھارت 15 رکنی نئی مجوزہ سلامتی کونسل کا رکن بننے کی اہلیت نہیں رکھتا جس کی بنیادی وجہ مقبوضہ کشمیر پر سلامتی کونسل کی قراردادوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے پاکستانی سفیر منیر اکرم نے بھارت کا نام لئے بغیر کہا کہ برازیل، جرمنی اور جاپان (جی فور) ممالک سلامتی کونسل کے مستقل رکن کے لئے مہم چلا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بھارت جنوبی ایشیائی ممالک میں 20 سے زیادہ جنگوں میں ملوث رہا ہے اور اسے نے خطے بھر اور بالخصوص پاکستان میں دہشت گردی اور عدم استحکام کی معاونت کررہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس بھارتی ریاستی دہشت گردی کے ناقابل تردید اور واضح ثبوت ہیں۔
پاکستانی مندوب نے 193 رکنی جنرل اسمبلی میں سکیورٹی کونسل اصلاحات کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سلامتی کونسل کو زیادہ جمہوری ذمہ دار اور شفاف بنانے کی ضرورت ہے تاہم اس پر عملدرآمد میں تاخیر ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر کے بارے میں اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے جس سے کشمیری عوام کو حق خود ارادیت سے روک کر عالمی ادارے کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو اپنا فیصلہ کے حق سے محروم رکھا جا رہا ہے۔
منیر اکرم نے مزید کہا کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں عوام کی جائز جدوجہد آزادی کو کچلنے کے لئے 9 لاکھ سے زیادہ فوجی تعینات کر رکھے ہیں جو وہاں پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے مرتکب ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وادی میں مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے اور ریاست کو ہندو اکثریتی ریاست بنانے کے لئے مقبوضہ جموں و کشمیر کے باہر سے لوگوں کو لا کر وہاں بسایا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت پاکستان کے خلاف مسلسل جارحیت کر رہا ہے اور لائن آف کنٹرول پر ہماری طرف معصوم شہری آبادیوں کو آرٹلری، چھوٹے اور بڑے اسلحہ سے نشانہ بنایا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت جیسا ملک سلامتی کونسل کا مستقل یا عارضی رکن بننے کی صلاحیت یااہلیت نہیں رکھتا۔
پاکستانی مندوب نے کہا کہ جنرل اسمبلی نے فروری 2009 میں سلامتی کونسل کی اصلاحات کے لئے بڑے پیمانے پر مذاکرات کا عمل شروع کیا تھا اور اراکین کی تعداد، ووٹ دینے کے طریقہ کار، علاقائی نمائندگی، سلامتی کونسل کے اراکین کی مجموعی تعداد اور کونسل کے کام کرنے کے طریقہ کار جیسے 5 بڑے شعبوں میں اصلاحات کے لئے مذاکرات شروع کئے گئے تھے جبکہ اصلاحات کے ایجنڈے میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ساتھ سلامتی کونسل کے کام کرنے کا طریقہ کار بھی اصلاحات کے ایجنڈے میں شامل تھا۔ انہوں نے کہا کہ سلامتی کونسل میں توسیع کے معاہدے کے باوجود اور اقوام متحدہ کے اصلاحات کے ایجنڈے کے تحت رکن ممالک اب تک اس حوالے سے منقسم نظر آتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جی فور ممالک سلامتی کونسل کے اراکین کی تعداد 10 تک بڑھانے جن میں 6 مستقل اراکین اور 4 غیر مستقل اراکین شامل ہوں کے حوالے سے اپنی مہم میں کسی لچک مظاہر نہیں کر رہے۔ دوسری جانب پاکستان اور اٹلی کی سربراہی میں مستقل اراکن کی سلامتی کونسل میں شمولیت کی مخالفت کررہا ہے کیونکہ اس طرح کے اقدامات سے سلامتی کونسل کو موثر نہیں بنایا جا سکے گا اور اس اقدام سے جموریت کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی بھی ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت سلامتی کونسل کے اراکین کی تعداد پانچ ہے جن میں برطانیہ، چین، فرانس ،روس اور امریکا شامل ہے جبکہ غیر مستقل اراکین کی تعداد 10 ہے۔
پاکستانی مندوب نے کہا کہ پاکستان اور اٹلی کی سربراہی میں کام کرنے والا گروپ (یو ایف سی) اصلاحات کی حمایت کرتا ہے جس سے سلامتی کونسل میں خود مختاری اور مساوات کو فروغ حاصل ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہماری تجویز کو منظور کیا جائے تو اس کو جنرل اسمبلی کے اراکین کی بھرپور حمایت حاصل ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم بھرپور لچک کا مظاہرہ کررہے ہیں اور مختلف معاہدوں کے حوالے سے اقوام متحدہ کے رکن ممالک کی اکثریت کے حامی ہیں جن میں افریقی علاقائی گروپ، عرب گروپ اور او آئی سی وغیرہ شامل ہیں۔
انہوں نے واضح کیاکہ افریقہ براہ راست نمائندگی کا خواہش مند ہے اور ان کی مجموعی نمائندگی کی ضرورت ہے۔ افریقہ سلامتی کونسل کے مستقل اراکین میں زیادہ نشتیں اور مستقل نشستیں حاصل کرنے کا خواہش مند ہے۔ انہوں نے کہا کہ یو ایف سی افریقی گروپ کے ساتھ مل کر تمام علاقائی گروپس کے مفادات کی نگرانی کرے گا اور سلامتی کونسل میں توسیع کے لئے ان کو اپنے نمائندے منتخب کرنے کے حق کے لئے جدوجہد جاری رکھے گا۔