اسلام آباد: (دنیا نیوز) وزیراعظم عمران خان اور پی ٹی آئی رہنما جہانگیر ترین کے درمیان رابطے کرانے کیلئے وفاقی وزرا نے کوششیں تیز کر دی ہیں۔
ذرائع کے مطابق بعض حکومتی وزرا کے جہانگیر ترین سے بیک ڈور رابطے جاری ہیں۔ وزیراعظم کے قریبی ساتھی بھی جہانگیر ترین سے صلح کے خواہشمند ہیں۔
خبریں ہیں کہ جہانگیر ترین کے ہم خیال گروپ کی وزیراعظم سے ملاقات کیلئے بھی رابطے جاری ہیں۔ حکومتی ارکان چاہتے ہیں کہ یہ معاملہ افہام وتفہیم سے حل ہو جائے۔
خیال رہے کہ جہانگیر ترین اور ان کے صاحبزادے کو فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے مقدمات کا سامنا ہے، ان مقدمات میں دونوں شخصیات پر منی لانڈرنگ کے مبینہ الزامات عائد کئے گئے ہیں۔
جہانگیر ترین نے ان الزامات کی ہمیشہ کی طرح تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں ایک سال تک چپ رہا لیکن مجھ سے ذاتی انتقام لینے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔ میں دوست ہوں، مجھے دشمنوں میں نہ دھکیلا جائے۔
یہ بھی پڑھیں: عمران خان کیساتھ تعلق بھولنے والا نہیں، دراڑیں ختم ہو جائیں گی: جہانگیر ترین پرامید
خیال رہے کہ گزشتہ سال دنیا نیوز کو دیئے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں جہانگیر ترین نے کہا تھا کہ وزیراعظم عمران خان سے بڑا تعلق تھا، ہم نے اکٹھے جدوجہد کی۔ ہمارے تعلق کی گہرائی میں اور عمران خان ہی جانتے ہیں۔ ان کے تاثرات اور جذبات کی میں قدر کرتا ہوں۔
دنیا نیوز کے پروگرام ‘’دنیا کامران خان کیساتھ’’ میں اپنے دل کی باتیں کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ایک دکھ عمران خان کو ہے اور ایک دکھ مجھے بھی ہے کہ ہمارے تعلقات یہاں تک پہنچے، یہ افسوسناک بات ہے۔ سیاسی جدوجہد، پاناما کیس اور جوڈیشل کمیشن میں ہم ساتھ تھے۔ عمران خان اور میں روزانہ اکٹھے ہو کر کام کیا کرتے تھے۔
جہانگیر ترین کا کہنا تھا کہ ہمارا تعلق بھولنے والا نہیں، مجھے وہ چیزیں یاد آتی ہیں۔ ہمارے بیچ دراڑیں پڑنے کا مجھے بھی افسوس بہت ہے۔ میرا عمران خان کا جیسا تعلق تھا، دراڑیں ختم ہو جائیں گی۔ دراڑیں ختم ہونے کی خواہش بھی ہے۔ میں وزیراعظم کے وژن کا سب سے بڑا حمایتی تھا۔ سوچنا ہوگا کہ میرا اور عمران خان کا تعلق ختم ہونے کا کس کو فائدہ ہوا؟
ان کا کہنا تھا کہ مجھے یقین بھی ہے شوگر کمیشن رپورٹ کی وجہ سے یہ سارا کچھ ہوا ہے۔ شوگر کمیشن رپورٹ صحیح نہیں، عجیب الزامات ہیں۔ الزامات کا چینی کی قیمت بڑھنے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ عجیب سی بات ہے چینی کی قیمت بڑھنے پر کمیشن بنا لیکن رپورٹ میں یہ نہیں لکھا کہ چینی قیمت کیوں بڑھی؟ جب چینی 50 روپے کلو تھی، تب بھی یہ گڑ بڑ تھی، آج پاکستان کی دیگر صنعتوں میں بھی ایسی گڑ بڑ ہے۔
چینی کی قیمت بڑھنے کے معاملے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ہول سیل اور ریٹیل سیکٹر ریگولیٹ نہیں ہے۔ مال خریدنے والے ٹیکس میں اپنا نام نہیں دیتے۔ ہر کام میں اچھے کاروباری اور کالی بھیڑیں ہوتی ہیں۔ ڈبل بکس ہوتی ہونگی، مگر میرا کاروبار ایسا نہیں ہے، اگر چینی پر شفاف تحقیقات ہوں تو سرخرو ہوں گا۔
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ وزیراعظم اپنے جذبات کا مجھ سے بھی اظہار کر چکے ہیں۔ انھیں بتایا گیا ہے میں چینی بحران میں شامل تھا لیکن میں تو چینی کی برآمد کے فیصلے میں شامل بھی نہیں تھا۔ چینی کی برآمد کا فیصلہ اسد عمر کی سربراہی میں ہوا تھا۔ پاکستان میں گنے کی قیمت زیادہ ہونے سے چینی مہنگی ہے۔ آٹے اور گندم میں کیا ہوا؟ وہاں تو میرا تعلق ہی نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اجناس کی قیمتیں طلب اور رسد کی بنیاد پر بڑھتی ہیں۔ گندم کی زیادہ ذخیرہ اندوزی خود حکومت کر رہی ہے۔ مارکیٹ میں گندم ریلیز کریں، مسئلہ حل ہو جائے گا۔ حکومت نے 60 لاکھ ٹن گندم ذخیرہ کیوں کی ہے؟
حکومتی طرز عمل پر بات کرتے ہوئے جہانگیر ترین نے کہا کہ یہ بدقسمتی ہے کہ ہمیشہ فیصلہ دیر سے اور ہلکا کرتے ہیں۔ مارکیٹ میں شارٹیج کے تاثر سے چینی مہنگی ہوئی، دراصل حکومت کو طلب اور رسد کو سنبھالنا ہوتا ہے۔