اپوزیشن سیاسی تبدیلی کے لئے کتنی سنجیدہ؟

Published On 17 February,2022 09:10 am

لاہور: (سلمان غنی) اپوزیشن کی جانب سے موجودہ حکومت کے خلاف تحریک کو بڑا دھچکا مسلم لیگ (ق) کی جانب سے ایک مرتبہ پھر وزیراعظم عمران خان پر اظہار اعتماد کی صورت میں ملا ہے ۔ اپوزیشن اتحاد خصوصاً اس کی لیڈر شپ شہبازشریف، آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن نے تقریباً ایک ہفتہ سے جاری سرگرمیوں کے ذریعے یہ ماحول بنا دیا تھا کہ اپوزیشن لیڈر شپ حکومتی اتحادیوں سے رابطوں اور ملاقاتوں کے ذریعے انہیں اپنی حمایت پر مجبورکر سکتی ہے لیکن وہ اس عمل کے ذریعے غالباً یہ بھول رہے تھے کہ حکومتی اتحادی خصوصاً ق لیگ، ایم کیو ایم وہ جماعتیں ہیں جس پر ماضی میں خود وزیراعظم عمران خان شدید تحفظات ظاہر کرتے ہوئے ان پر گرجتے نظر آتے تھے لیکن 2018ء کے انتخابی نتائج کے بعد انہیں سب کچھ بھلاتے ہوئے تحریک انصاف کے ساتھ کھڑا ہونا پڑا اور ان اتحادیوں کے ساتھ باقاعدہ معاہدے بھی ہوئے ۔

اب پیدا شدہ صورتحال میں اصل سوال یہی تھا کہ کیا حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان فاصلے قائم ہوئے ہیں اور اگر قائم ہوئے ہیں تو اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا تھا کہ کیا حکومتی اتحادی اس مشکل صورتحال میں حکومت کے ساتھ کھڑے ہوں گے یا اپوزیشن کا ساتھ دیں گے۔ اب جب مونس الٰہی کی جانب سے واضح اور کھلے انداز میں حکومت کی حمایت اور وزیراعظم عمران خان پر اعتماد سامنے آیا ہے تو کہا جا سکتا ہے کہ اس سے ان سرگرمیوں خصوصاً میل ملاقاتوں کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا جو ہفتہ دس روز سے جاری تھا۔ اس حوالے سے لاہور، حکومت مخالف سرگرمیوں کا مرکز بنا ہوا تھا لہٰذا اب بڑا سوال یہ نظر آ رہا ہے کہ کیا اپوزیشن حکومت مخالف ایجنڈا پر گامزن رہے گی اور عملاً حکومت سے نجات پر کوئی پیش رفت ہو پائے گی؟

اپوزیشن کی جانب سے حکومت مخالف سرگرمیوں سے ایک بات ضرور سامنے آئی تھی کہ ن لیگ کے قائد نوازشریف کا یہ مؤقف تھا کہ حکومت کو ہٹانے اور گرانے کی بجائے اس کوچلنے دیا جائے اسے وقت پورا کرنے دیا جائے تاکہ لوگوں کو پتہ چل سکے کہ اس کی کارکردگی کیا ہے۔ آخر کیا وجہ بنی کہ یکا یک لندن سے شہبازشریف کو عدم اعتماد کیلئے گرین سگنل تو مل گیا اور بعد ازاں سابق صدر آصف علی زرداری بھی بلاول بھٹو زرداری کے ہمراہ شہبازشریف کی رہائش گاہ پر پہنچے اور ان ہائوس تبدیلی کے حوالے سے میل ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔واقفان حال مذکورہ سارے عمل کو حکومت کے خلاف ایک بڑے کھیل کا حصہ ہی قرار دیتے ہیں۔ اب بھی مذکورہ حلقے یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ ق لیگ کی جانب سے حکومت پر اعتماد کے اظہار کے بعد بھی عدم اعتماد کا آپشن مسترد نہیں ہوا ۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ حکومت کو حوصلہ ضرور ہوا ہے اور ہو سکتا ہے کہ ایم کیو ایم بھی اس طرح کا کوئی اشارہ دے۔

ان ہائوس تبدیلی کے عمل بارے یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ بعض قوتیں یہ نہیں چاہیں گی کہ آج کی صورتحال میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں کوئی غیر معمولی ہنگامی صورتحال طاری ہو لہٰذا اپوزیشن کو ایسے سگنل دیئے گئے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ سیاسی کھیل میں کسی کے ساتھ فریق نہیں ہو گی۔ مولانا فضل الرحمن کی جانب سے بھی ایسا بیان آیا تھا جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ سیاسی معاملات میں ریاستی ادارے براہ راست مداخلت سے گریزاں نظر آتے ہیں۔

سیاسی کھیل میں فتح کیلئے کچھ کرکے دکھانا پڑتا ہے کیا آج کی اپوزیشن کے پاس مذکورہ درپیش چیلنجز خصوصاً معاشی صورتحال کے سدباب کا کوئی پروگرام ہے ؟ کیا اپوزیشن برسراقتدار آکر بجلی کی قیمتوں میں کمی لا سکتی ہے؟پٹرولیم کی قیمتوں میں اضافہ کے رحجان پر قابو پایا جا سکتا ہے؟ اور خصوصاً اشیائے خورونوش کی قیمتوں پر کنٹرول حاصل ہو سکتا ہے؟ اور کیا نئی حکومت آئی ایم ایف کے کئے جانے والے معاہدوں پر نظرثانی کر سکتی ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو عوامی اور سیاسی سطح پر زیر غور ہیں اور اس حوالے سے اپوزیشن کو عوام کو مطمئن کرنا پڑے گا ورنہ اگر تبدیلی برائے تبدیلی ہونا ہے اور اس میں بھی قومی اور عوامی مسائل کے حل میں کوئی پیش رفت نہیں ہوگی تو پھر ایسی تبدیلی کس حد تک کارگر ہو سکے گی؟ البتہ اگر سیاسی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو ہمیشہ اپوزیشن مسائل زدہ عوام کی آواز بنتی ہے اور جب عوام حکومت سے نالاں ہوتے ہیں تو وہ اپوزیشن کی جانب دیکھتے ہیں۔ اس جائزے کو خود اپوزیشن کو لینا پڑے گا کہ بدترین معاشی صورتحال اور خصوصاً اشیائے خورو نوش کی قیمتوں کو لگنے والی آگ کے باعث عوام میں پیدا شدہ ردعمل کو وہ کیونکر صحیح طریقے سے پیش نہیں کرا سکی اور آخر کیا وجہ ہے کہ مہنگائی زدہ عوام ان کی جانب نہیں دیکھ پا رہے۔

پی ٹی آئی کے رہنما جہانگیر ترین اور ان کے ساتھیوں نے ایک مرتبہ پھر سے سیاسی محاذ پر متحرک ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس حوالے سے ان کا پہلا اجلاس اس گروپ کے اہم رکن عون چو ہدری کی رہائش گاہ پر منعقد ہوا ہے جس میں ملکی صورتحال خصوصاً حکومتی کارکردگی، آنے والے بلدیاتی و عام انتخابات میں اپنی حکمت عملی پر تفصیلی تبادلہ خیال ہوا۔ اجلاس میں بظاہر تو حکومت کے خلاف کسی لائحہ عمل کے تعین کی بات نہیں ہوئی البتہ جہانگیر ترین اور ان کے ساتھی اراکین آنے والے حالات خصوصاً انتخابات میں اپنے سیاسی کردار بارے فکر مند ضرور ہیں ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اپنے سیاسی و انتخابی مفادات بارے اس حکمت عملی کا تعین کیا جائے جن میں انہیں یقینی بنایا جا سکے۔ اس وقت میں جب حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی باتیں ہو رہی ہیں جہانگیر ترین گروپ کے پھر سے فعال ہونے کو اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ جہانگیر ترین اس وقت اپوزیشن کے بعض قائدین سے رابطوں میں ہیں البتہ ان کی باضابطہ ملاقاتوں کا سلسلہ شروع نہیں ہوا۔