لاہور: (حسنین علی ) ہزاروں برس سے پانی انسان کی بقا ء اور بربادی دونوں کا ذمہ دار رہا ہے۔کہیں ابر کرم بن کر آسمان سے برسا ہے تو کبھی سیلا ب کی صورت میں تباہی مچاتا رہا ہے۔آج بھی پانی کو دنیا کا سب سے اہم اور قیمتی جزو سمجھا جاتا ہے ۔ ایک لمحے کے لئے اپنے معمولات زندگی پر نظر ڈالئے اور سوچئے کہ ایسا کون سا کام ہے جو آپ بغیر پانی کے کر سکتے ہیں؟
تاریخ انسانی کی تمام قدیم قدیم تہذیبیں کسی نہ کسی دریا کے ساتھ منسک رہی ہیں۔ہڑپہ کے لئے دریائے سندھ اورمصر کے لئے دریائے نیل مشہور رہا ۔ محققین کے مطابق ہڑپہ کی بربادی کی ایک وجہ اس کے عقب میں بہنے والے دریا کا سوکھ جانا تھا۔قدیم تاریخ میں بھی پانی تنازعات اور عالمی سیاست کا حصہ رہا ہے۔بھارت بھی پاکستان کے دریاؤں کا پانی روک کر بدترین آبی دہشتگردی کا مظاہر ہ کر رہا ہے۔ غیر ضروری ڈیمز کی تعمیر کی وجہ سے پاکستان کے کئی دریا خشک ہو چکے ہیں۔ماہرین کے مطابق اس میں کوئی شک نہیں کہ آنے والے کچھ برسوں میں پانی آدھی سے زیادہ دنیا کے لئے وجہ تنازع بن سکتا ہے۔ ایشیاء میں معاشی ترقی کی شرح بہتر اور پانی کے ذخائر بھی ضرورت کے مطابق موجود ہیں لیکن دنیا کے کچھ علاقے ایسے بھی ہیں جہاں پانی ،خوراک سے زیادہ مہنگا ہو چکا ہے اور وہاں کا طرز زندگی دیگر دنیا سے بہت مختلف ہے۔
افریقہ کے بیشتر ممالک کو دنیا میں سب سے زیادہ پانی کی قلت کا سامنا ہے۔افریقہ کے بچے اور خواتین ہر سال مل کر 45ہزار سال کا وقت پانی اکٹھا کرنے میں گزار دیتے ہیں۔
عالمی میٹریورولوجیکل آرگنائزیشن (World Meteorological Organization) کی سٹیٹ آف کلائمیٹ سروس رپورٹ 2021ء کے مطابق پچھلے بچاس سال میں افریقہ کو ایک ہزار695قدرتی آفات کا سامنا رہا جن کا تعلق موسم، پانی اور ماحولیات سے تھا۔ ان آفات کی وجہ سے7.5ملین افراد لقمہ اجل بنے اور 38.5 ارب ڈالر کا معاشی نقصان ہوا۔ 50 برسوں میں پیش آنے والے حادثات کا 60فیصد تعلق سیلاب سے تھا جس کی وجہ سے صرف 4فیصد اموات ہوئیں جبکہ خشک سالی کا تعلق صرت16فیصد آفات سے تھا لیکن 95فیصد اموات اسکی وجہ سے ہوئیں۔
دنیا میں خشک سالی سے سب سے زیادہ اموات افریقہ میں ہوتی ہیں۔صحارا کے جنوبی علاقے کو ذیلی صحارن افریقہ کہا جاتا ہے جس میںجنوبی افریقہ، کینیا، نائیجیریااور کانگو جیسے ممالک شامل ہیں۔اس علاقے میں 90فیصد آبادی زراعت سے وابستہ ہے اور پانی حاصل کرنے کا واحد ذریعہ بارش ہے کیونکہ ان ترقی پذیر ممالک میں نہریں اور ڈیم موجود نہیں۔ذیلی صحارن افریقہ میں 40کروڑ افرادکو صاف پانی تک رسائی حاصل نہیں اور پچھلے 25برسوں میں اس خطے کی آبادی دگنی ہو چکی ہے۔افریقہ میں پانی اکٹھا کرنے کی ذمہ داری خواتین کی ہے ،اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق افریقی خواتیں سالانہ 40ارب گھنٹے پانی اکٹھا کرنے میں گزار دیتی ہیں یہ اعداد و شمار فرانس کی پوری لیبر فورس کی ایک سال کی مزدوری کے برابر ہیں۔
افریقہ میں موجود مڈغاسکر کے حالات سب سے زیادہ خراب ہیں۔ یہاں 20لیٹر پانی کی بوتل کی قیمت کسان کی ایک دن کی مزدوری کے برابر ہے۔جن کے پاس گاڑیاں موجود ہیں وہ ندی کنارے اکٹھا ہونے والا پانی بوتلوں میں بھر کر استعمال کرتے ہیں اور کچھ لوگ مختلف گڑھوں میں جمع ہونے والا بارش کا پانی استعمال کر کے اپنی ضروریات پوری کرتے ہیں۔حیران کن بات یہ ہے کہ مڈغاسکر میں پانی کی کمی نہیں ہے۔
سرکاری رپورٹ کے مطابق وہاںپر سالانہ فی کس پانی کے 23ارب کیوبک میٹر پانی کے ذخائر موجود ہیں۔انتے زیادہ ذخائر ہونے کے باوجود یہاں اس قدر برے حالات ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہیں جہاں بہت زیادہ بارش کم وقت میں ہو جاتی ہے جس سے پانی کو سٹور ہونے کا موقع نہیں ملتا ۔پچھلے دو سال میں میڈ گاسکر میں صرف60فیصد بارش ہوئی ہے جو 30سال میں سب سے کم ہے۔
جنگلات کی کٹائی بھی ان حالات کی ذمہ دار ہے ، درختوں کی کمی کی وجہ سے بارش کا پانی زمین تک نہیں پہنچتا جس کی وجہ سے پورا سال زمینی پانی میں کمی رہتی ہے۔نائیجیریا کی بھی کچھ ایسی ہی صورتحال ہے۔پانی کا کنٹرول مافیا کے ہاتھ میں ہے اور پچھلے کچھ ہی برسوں میں پانی کی قیمت میں تین گنا اضافہ ہو گیا ہے۔نائیجیریا میں پانی کی قلت کی بڑی وجہ ماحویلیاتی تبدیلی ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر حالات پر بروقت قابو نہ کیا گیا تو پانی افریقہ کے لئے سونے سے زیادہ قیمت اختیار کر جائے گا اور پھر صرف وہی زندہ رہ سکے گا جس کے پاس سونے کی قیمت میں پانی خریدنے کے استطاعت ہوگی۔
حسنین علی نوجوان صحافی ہیں اور تحقیقی مطالعہ کا شوق رکھتے ہیں۔ ان کی تحریریں ملک کے موقر جرائد میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔