لاہور: (لیاقت انصاری سے) پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ آرمی چیف کوئی بھی آجائے مجھے فرق نہیں پڑتا، سپہ سالار کا تقرر میرٹ پر ہونا چاہیے، لانگ مارچ کب ہوگا کسی کو تاریخ نہیں بتاؤں گا،یہ الیکشن سے پہلے میری آخری کال ہو گی۔
ایوان وزیراعلیٰ 90 شاہراہ قائد اعظم پر سینئر صحافیوں سے ملاقات کے دوران عمران خان نے کہا کہ آرمی چیف کوئی بھی آجائے، مجھے فرق نہیں پڑتا، سپہ سالار کا تقرر میرٹ پر ہونا چاہیے، یہ مرضی کا آرمی چیف لانا چاہتے ہیں، یہ تو سیکورٹی تھریٹ ہیں ایک مجرم کیسے اتنی بڑی تعیناتی کا فیصلہ کرسکتا ہے۔
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سائفر کہیں چوری نہیں ہوا، سائفر کی ماسٹر دستاویز دفتر خارجہ میں ہوتی ہے، شکر ہے انہوں نے سائفر کو تسلیم تو کیا، کمیٹی مجھے بلاتی ہے تو پہلے یہ پوچھوں گا کہ ڈونلڈ لو نے کس کو ہٹانے کا حکم دیا۔
پی ٹی آئی چیئر مین نے مزید کہا کہ ان کو اپنی کرپشن کا ڈر ہے مجھے کوئی ڈر نہیں۔ مخالفین کو ایک بار پھر این آر او دے دیا گیا، لانگ مارچ کب ہوگا کسی کو تاریخ نہیں بتاوں گا، ہر چیز ریکارڈ ہوتی ہے، تاریخ میں نے اپنے تک رکھی ہے، شاہ محمود قریشی میرے وائس چیئرمین ہیں، ان کو بھی نہیں بتایا، 16اکتوبر دور لگتا ہے۔ ہوسکتا ہے ضمنی انتخاب کی نوبت ہی نہ آئے۔
سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن جتنا جانبدار اتنا کبھی نہیں دیکھا، موجودہ الیکشن کمیشن جانبدار ہے، یہ مجھے نااہل کروانا چاہتے ہیں، چیلنج ہے میرا اور آصف علی زرداری، نواز شریف کا توشہ خانہ کیس ایک ساتھ سن لیا جائے، میں نے کچھ غیر قانونی نہیں کیا، انہوں نے تو غیر قانونی طور پر قیمتی گاڑیاں لے لیں، تو شہ خانہ میں زرداری اور نواز قیمتی گاڑیاں نہیں لے سکتے تھے مگر گھر لے گئے۔
عمران خان نے مزید کہا کہ ہر کام مذاکرات سے ہوسکتا ہے۔ آخر میں تو مذاکرات سے ہی باتیں طے ہوتی ہیں۔ انہوں نے نیب چیئرمین مرضی کا لگا لیا۔ یہ اداروں کے سربراہ اپنی مرضی کے لگانا چاہتے ہیں۔
لانگ مارچ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کیسے ہمیں روکے گا۔ اسلام آباد کے چاروں طرف تو ہماری حکومتیں ہیں، پنجاب، خیبرپخوتخونخوا، آزاد کشمیر میں ہم ہیں، یہ خالی دھمکیاں دے رہا ہے۔
ممکنہ لانگ مارچ، اہم کارڈ ابھی میرے سینے سے لگے رہیں گے: عمران خان
اس سے قبل تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی صدارت میں گوجرانوالہ، ساہیوال، گجرات اور لاہور ڈویژن کا الگ الگ اجلاس 90 شاہراہِ قائد اعظم میں ہوئے۔ اجلاس میں وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی۔ مرکزی سیکرٹری جنرل اسد عمر، سینئر صوبائی وزیر میاں اسلم اقبال، سینٹرل پنجاب کی صدر ڈاکٹر یاسمین راشد، جنرل سیکرٹری حماد اظہر، سیکرٹری اطلاعات سینٹرل پنجاب عندلیب عباس، سینئر نائب صدور کرنل (ر) اعجاز منہاس،محمد احمد چٹھہ، ڈاکٹر عظیم الدین زاہد لکھوی ۔شکیل نیازی ۔طارق حمید ۔عامر ڈوگر ۔ شانیلا علی سمیت دیگر نے بھی شرکت کی۔
اجلاس میں سینٹرل پنجاب کی یوسی لیول تک تنظیموں کا جائزہ لیا گیا۔ اجلاسوں میں سنٹرل پنجاب کے ضلعی صدور، جنرل سیکرٹریز، تحصیلوں اور ٹائونز کے صدور وجنرل سیکرٹریز نے شرکت کی۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین سے پارٹی رہنماؤں نے ملاقات کی، جس میں پارٹی رہنماؤں کو لانگ مارچ کے لئے ٹاسک دے دیا گیا۔
سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہر ضلع سے چھ چھ ہزار لوگوں کو حقیقتی آزادی مارچ میں لیکر آنا ہے، لانگ مارچ کا آغاز کہاں سے ہوگا وقت اور جگہ کا تعین میں کروں گا۔ لانگ مارچ کے بارے میں اہم کارڈ ابھی میرے سینے سے لگے رہیں گے۔
عمران خان نے کہا کہ پارٹی تنظیم اپنی تیاری مکمل رکھے۔ ہر تنظیم اپنا اپنا ڈیٹا سینیٹر شبلی فراز کو بھیج دیں، ہر ضلع میں ساڑھے تین ہزار سے زائد عہدیدار ہوں گے جو مارچ میں لوگون کو لیکرآئیں گے۔ تنظیموں کی جانب سے مکمل ڈیٹا ملتے ہی لانگ مارچ کی کال دے دوں گا۔
اس سے قبل عمران خان کے زیر صدارت ایوان وزیر اعلیٰ 90 شارع قائداعظم اجلاس ہوا، اجلاس میں اسد عمر، شاہ محمود قریشی، میاں اسلم اقبال، یاسمین راشد، حماد اظہر و دیگر رہنما شریک ہوئے۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ ملک کو کرپٹ مافیا سے بچانا ہے۔ حقیقی ازادی کی حفاظت کرنا ہے اور آزادی مارچ کے لئے جب کال دوں اپ نے باہر نکلنا ہے۔
عمران خان نے اس موقع ہر ارکان سے حلف بھی لیا۔ سینئر صوبائی وزیر میاں اسلم اقبال نے حلف نامہ پڑھا۔
عمران خان سمیت پارٹی کی تمام قیادت اور تنظیمی عہدیداران نے حلف اٹھا یا۔ جس میں عہد کیا گیا کہ ملک کے ائین کی سر بلندی ،ملک کی سالمیت کے لئے حقیقی آزادی مارچ کے جہاد میں شرکت اور کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا جائے گا۔
اجلاسوں سے خطاب میں عمران خان نے کہا کہ یہ چوروں کا ٹولہ اپنے کرپشن کے کیسز ختم کروا رہا ھے۔ کرائم منسٹر شہباز شریف نے 11 سو ارب روپے کے کرپشن کے کیسز ختم کروائے ہیں۔امپورٹڈ حکومت نے عوام پر مہنگائی کے بم گرائے دئیے ہیں۔ ملک کے موجودہ بحرانوں کا واحد حل جنرل الیکشن میں ہیں۔ پوری قوم پی ٹی آئی کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ تحریک انصاف واحد پارٹی ہے جو وفاق کی پارٹی ہے۔ تحریک انصاف کی نمائندگی چاروں صوبوں سمیت آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں بھی موجود ہے۔ پی ٹی آئی واحد جماعت ہے جو ملک کی عوام کو موجودہ مشکلات سے نکالنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جلسوں کے اندر لوگ آتے ہیں، احتجاج میں زیادہ لوگ نہیں آتے، کال ایک ہفتے کے بعد کسی بھی وقت آ سکتی ہے، قوم آگے نکلی ہوئی ہے اور پارٹی تنظیمیں پیچھے ہیں، قوم ہمارے ساتھ کھڑی ہے، 26 سال پہلے شروع ہوا، آہستہ آہستہ پارٹی بنائی، ہم یہ جدوجہد حقیقی آزادی کے لیے کر رہے ہیں، 50 سال بعد ملک میں اتنی مہنگائی ہوئی ہے، پاکستان لوٹا جا رہا ہے، قوم تباہی کی طرف جا رہی ہے، آزادی کی جدوجہد کو جہاد کہتے ہیں۔
عمران خان نے پارٹی اجلاس میں دو غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے کیا کہ25 مئی کے لانگ مارچ کی کال پر ہم سے دو غلطیاں ہوئیں۔ ہم نے مخالفین کو ڈیموکریٹ سمجھنے کی غلطی کی کہ ہمارے مخالفین جمہوری سوچ رکھتے ہی نہیں۔ ہم نے ان کے ہر مارچ کو فری ہینڈ دیا جبکہ انہوں نے ہم پر ظلم کیا ۔ پچھلے لانگ مارچ میں ہماری تنظیمیں بھی تیار نہ تھیں ۔ اب ہم تنظیموں کو تیار کررہے ہیں۔
اس سے قبل سابق وزیراعظم سے پنجاب کے وزیر پارلیمانی امور بشارت راجہ نے ملاقات کی بشارت راجہ نے صوبے کے پارلیمانی امور بارے بریف کیا پنجاب کے سیاسی اور انتظامی امور پر بات چیت کی گئی۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ ہمیں ملک کو کرپٹ مافیا سے بچانا ہے قوم عظیم جدوجہد کے لئے تیار رہے۔
انہوں نے پنجاب کابینہ کے ارکان سے بھی ملاقات کی اور آئندہ لائحہ عمل بارے مشاورت کی عمران خان نے کابینہ ارکان کو عوام کو متحر ک کرنے کی ہدایت کی۔
سابق وزیراعظم عمران خان نے وکلا سے بھی ملاقات کی اورکہاکہ لانگ مارچ میں آپ نے ساتھ چلناہے ہمیں اپ کی قدم قدم پرضرورت پیش آئے گی آ پ نے قانونی معاملات میں ہماری مدد کرناہے
سپیکر استعفوں سے متعلق آئینی ذمہ داری پوری کریں: پی ٹی آئی ارکان کی عدالت میں درخواست
پاکستان تحریک انصاف نے قومی اسمبلی سے اپنے اراکین کے استعفوں کی منظوری کے سلسلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرلیا جس میں استدعا کی گئی کہ عدالت سپیکر قومی اسمبلی کو ہدایت دے کہ وہ استعفوں کی منظوری سے متعلق اپنی آئینی ذمہ داری پوری کریں۔
درخواست گزاروں نے یہ استدعا بھی کی کہ عدالت سپیکر کو حکم دے کہ وہ درخواست گزاروں اور دیگر 112 ارکان کو طلب کریں اور تحقیق کرلیں جن اراکین نے استعفے دیے انہوں نے آئین کی دفعہ 64 کے تحت اپنے مرضی سے دیے تھے۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ قانون کے مطابق درخواست گزاروں کو سنے بغیر سپیکر قومی اسمبلی استعفوں سے متعلق اطمینان نہیں کر سکتے۔ پٹیشنرز سپیکر کے سامنے پیش نہیں ہوئے اس لیے ان کے استعفے منظور نہیں ہوئے، ابھی الیکشن کا اعلان نہیں ہوا اور 123 ارکان کے استعفوں کو ایک ساتھ دیکھا بھی نہیں گیا۔
درخواست گزاروں نے مؤقف اختیار کیا کہ رکن قومی اسمبلی شکور شاد کا استعفی منظور ہوا تو انہوں نے عدالت میں درخواست دی کہ سپیکر نے انہیں سنے بغیر استعفیٰ منظور کر لیا۔ شکور شاد کی درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کا استعفی منظوری کا نوٹی فکیشن معطل کردیا تھا۔
مذکورہ درخواست آج ہی سماعت کے لیے مقررر کرنے کی بھی درخواست کی تھی جسے عدالت نے مسترد کردیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ پی ٹی آئی کی استعفوں کی منظوری سے متعلق درخواست پر کل (آئندہ روز) سماعت کریں گے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر اس پٹیشن کے درخواست گزاروں میں ڈاکٹر شیریں مزاری، شاندانہ گلزار، علی محمد خان، فرخ حبیب، فضل محمد خان، شوکت علی، فخر زمان خان، اعجاز شاہ، جمیل احمد، محمد اکرم شامل ہیں۔
یاد رہے کہ اپریل میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں پی ٹی آئی اراکین نے مشترکہ طور پر قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دینے کا فیصلہ کیا تھا۔
اسمبلی سے بڑے پیمانے پر مستعفی ہونے کے فیصلے کا اعلان پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے 11 اپریل کو وزیر اعظم شہباز شریف کے انتخاب سے چند منٹ قبل اسمبلی کے فلور پر کیا تھا۔
سابق ڈپٹی سپیکر قاسم سوری (جو اس وقت قائم مقام سپیکر کے طور پر کام کر رہے تھے) نے فوری طور پر استعفے منظور کرتے ہوئے قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کو نوٹی فکیشن جاری کرنے کی ہدایت کی تھی۔
نئی حکومت کی تشکیل کے بعد جون میں نئے سپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے پی ٹی آئی کے 123 اراکین اسمبلی کے استعفوں کی تصدیق کا عمل انفرادی طور پر یا چھوٹے گروپس میں بلا کر شروع کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
تاہم پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے اپنی پارٹی کے اراکین قومی اسمبلی کو استعفوں کی تصدیق کے لیے قومی اسمبلی کے سپیکر راجا پرویز اشرف کے سامنے پیش ہونے سے روک دیا تھا۔
بعدازاں سپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے رواں سال جولائی میں پاکستان تحریک انصاف کے 11 ممبران کے استعفی منظور کیے جن میں شیریں مزاری، اعجاز احمد شاہ، علی محمد خان، فرخ حبیب، فضل محمد خان، شوکت علی، فخر زمان خان، جمیل احمد خان، محمد اکرم چیمہ، عبدالشکور شاد، شاندانہ گلزار خان شامل تھے اور الیکشن کمیشن نے ان ممبران کے استعفوں کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا۔
چونکہ شیریں مزاری اور شاندانہ گلزار خان پنجاب اور خیبرپختونخوا سے خواتین کے لیے مخصوص نشستوں پر منتخب ہوئی تھیں اس لیے الیکشن کمیشن نے بقیہ 9 نشستوں پر ضمنی انتخابات کروانے کا فیصلہ کیا تھا۔
تاہم یہ ضمنی انتخابات سیلاب اور مون سون کی بارشوں کے باعث ملتوی کردیے گئے تھے۔
ایک روز قبل ہی پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنر اسد عمر نے اعلان کیا تھا کہ قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی ارکان کے 100 سے زائد استعفوں میں سے صرف 11 استعفوں کی منظوری کے خلاف ہائی کورٹ سے رجوع کریں گے۔