پشاور: (عابد حمید) 16 اکتوبرکو ہونے والے ضمنی انتخابات نے حالیہ سیاسی صورتحال کو ایک نیا رخ دے دیا ہے پیپلزپارٹی ،مسلم لیگ ن اور جے یو آئی جیسی بڑی سیاسی جماعتوں کا بڑا اکٹھ شکست خوردہ اور مایوس نظر آرہا ہے تو دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف فتح سے سرشار اور مزید مضبوط نظر آرہی ہے۔
ان ضمنی انتخابات کے حوالے سے بیشتر سیاسی ماہرین اور جماعتوںکے اندازے غلط ثابت ہوئے ہیں، خیبرپختونخوا پاکستان تحریک انصاف کا گڑھ ہے، بلدیاتی انتخابات میں بڑی کامیابی کے بعد پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کو یہ غلط فہمی ہوچلی تھی کہ شاید ان ضمنی انتخابات میں بھی ان کے امیدوار کوئی چمتکار دکھائیں گے لیکن ایسا نہ ہوسکا ،چارسدہ ،مردان اور پشاور میں حکومتی اکٹھ کو بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
اے این پی اور جے یوآئی کو ان تین حلقوں پر کیوں شکست ہوئی اس کی بہت ساری وجوہات ہیں ،زیادہ دور نہ جائیں گزشتہ اورگزشتہ سے پیوستہ سال ہی پی ڈی ایم کے بینر تلے پشاورمیں ہونے والے جلسوں کو ہی دیکھ لیں جو سب ناکام ثابت ہوئے تھے۔اصل مسئلہ شاید ان جماعتوں کی قائدین کو سمجھ نہیں آرہا یا پھر جان بوجھ کر اسے فی الوقت نظر انداز کیاجارہا ہے اور وہ ہیں ان جماعتوں کے ورکر جن میں نظریاتی بعد الطرفین پایاجاتا ہے۔
جے یو آئی اور اے این پی کو ہی لے لیں ماضی میں یہ جماعتیں ایک دوسرے پر طرح طرح کے فتویٰ لگاتی رہی ہیں ،پاکستان تحریک انصاف تناور درخت بننے سے قبل یہ جماعتیں ایک دوسرے کی نظریاتی طورپر شدید مخالف تھیں ۔پی ڈی ایم میںشامل ان جماعتوں کے اتحاد کو اگر’’غیرفطری‘‘ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا ،چارسدہ میں یہی غیرفطری اتحادایمل ولی کو لے ڈوبا اور اے این پی کے تمام اندازوں پر پانی پھر گیا۔
دوسری بات یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ چارسدہ میں اے این پی کی سب سے بڑی مخالف جماعت جے یو آئی ہی تھی جس کے امیدوار مولانا گوہر شاہ نے یہاں سے دو بار کامیابی حاصل کی ہے ،اگر ایمل ولی اس حلقے سے عمران خان جیسے تگڑے امیدوار کو شکست دے دیتے تو کیا آنے والے انتخابات میں جس میں کم وقت ہی باقی رہ گیا ہے جے یو آئی اس حلقے سے دوبارہ کامیابی حاصل کرسکتی تھی؟یہ وہ سوال ہے جس پر اے این پی کے تھنک ٹینک نے شاید سوچاہی نہیں۔
چارسدہ کے پولنگ سٹیشنز میں یہی دیکھنے میں آیا کہ اے این پی کا ورکر تو نکلا لیکن جے یو آئی کے ورکر نے اس کا ساتھ نہیں دیا،اس بات کا احساس اے این پی کو بھی ہوا ہے لیکن قدرے تاخیر سے۔ ذرائع کے مطابق اب اے این پی اس حوالے سے ’’تحقیقات‘‘کا سوچ رہی ہے، ان نتائج کے بعد دونوں جماعتوں کے مابین فاصلہ مزید بڑھ گیا ہے ۔مردان کے حلقے پر بھی نظر ڈالی جائے تو وہاں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال نظر آتی ہے مولانا محمد قاسم مضبوط امیدوار تھے اور ان کے بارے میں سمجھا جارہا تھا کہ وہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو ٹف ٹائم دیں گے لیکن بالآخر وہ بھی ان کے سامنے ڈھے گئے۔
یہاں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال نظر آئی اور پولنگ سٹیشن میں جہاں جے یو آئی کے کارکن پرجوش طریقے سے بھاگ دوڑ کرتے رہے وہیں اے این پی کے کارکن خال خال ہی نظر آئے ۔ شنید ہے کہ جے یو آئی کی قیادت بھی اس شکست پر خوش نہیں اور اس حوالے سے باقاعدہ تحقیقات کا بھی فیصلہ کیاگیا ہے۔
این اے 31 پشاور کی نشست تھی اور یہاں اے این پی کے غلام احمد بلور عمران خان کے مدمقابل تھے جس میں عمران خان نے انہیں 25ہزار ووٹ کے فرق سے شکست دی۔ پشاور میں بھی اے این پی تن تنہا نظر آئی اور دیگر اتحادی جماعتوں نے ان کا ساتھ نہ دیا ۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اے این پی کی مرکزی قیادت کا تمام زور چارسدہ کی نشست جیتنے پر تھا اور پشاور کے انتہائی اہم حلقہ این اے 31 کو بری طرح نظر انداز کیاگیا اس حلقے پر ایم پی اے ثمرہارون بلور نے البتہ بھرپور مہم چلائی۔
واضح رہے این اے 31 میں وہی علاقے شامل ہیں جہاں سے جے یو آئی کے ٹکٹ پر زبیر علی میئر پشاور منتخب ہوئے ہیں۔ یہ بات ناقابل فہم ہے کہ محض چند ماہ بعد ہی اسی حلقے سے جے یو آئی کی اتحادی جماعت کو اس بری طرح سے شکست کا سامنا کرناپڑسکتا ہے۔دوسری جانب ان تین حلقوں سمیت دیگر علاقوں سے ملنے والی فتوحات کے بعد پی ٹی آئی کا مورال کافی بلند ہوا ہے لیکن اس بات کا ادراک کرنا بھی ضروری ہے کہ چارسدہ اور مردان سے عمران خان جیتے تو ہیں لیکن فتح کا مارجن اتنا بڑا نہیں، اگر عمران خان کی بجائے کوئی اور امیدوار یہاں سے یہ انتخاب لڑتا تو اس کو شکست ہو سکتی تھی۔
مردان میں ووٹرز علی محمد خان سے زیادہ خوش نہیں اس حلقے میں پی ٹی آئی کے مابین بھی شدید اختلافات پائے جاتے ہیں اور اگر عام انتخابات میں پارٹی ورکرز کے تحفظات دور کئے بغیر پاکستان تحریک انصاف یہاں سے میدان میں کسی کو اتارتی ہے تو اس کو شکست کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اسی طرح چارسدہ میں بھی فتح کا مارجن محض چند ہزار ووٹوں کا ہے ،کمزور امیدوار ہونے کی صورت میں ایمل ولی یہ نشست اپنے نام کرسکتے تھے ،اے این پی ،جے یو آئی ،پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو بھی عام انتخابات میں اترنے سے پہلے کوئی مضبوط بیانیہ اپنانا ہوگا۔ حالیہ نتائج سے ثابت ہوگیاہے کہ یہاں کے لوگوں نے عمران خان کا بیانیہ بہت حد تک قبول کیا ہے۔ خیبرپختونخوا حکومت کی کارکردگی زیادہ اچھی تو نہیں لیکن ’’صحت کارڈپلس‘‘جیسے منصوبے نے اس حکومت میں نئی جان ڈالی ہے۔
پی ٹی آئی نے ایک ایسافلیگ شپ منصوبہ دیاجسے عام لوگ کسی صورت نظرانداز نہیں کرپارہے ،اس وقت 10 لاکھ روپے کی ہیلتھ انشورنس ہر شخص جیب میں شناختی کارڈ کی شکل میں لئے پھر رہا ہے۔ ادھر پی ڈی ایم حکومت کی جھولی میں فی الوقت بجلی اور گیس کے زائد بل ہی ہیں۔
پشاور،مردان اور چارسدہ کے حالیہ نتائج کے بعد یہ بھی ثابت ہوگیا ہے کہ پی ٹی آئی اگرچہ اس وقت صوبے کی مقبول ترین جماعت ہے لیکن اسے عمران خان کے علاوہ دیگرامیدواروں پر انحصار کرنے کیلئے ابھی بھی سخت محنت کرنا پڑے گی ،عام انتخابات کیلئے ٹکٹ دیکھ بھال کر دینے پڑیں گے اور ’’مجبوریوں‘‘ سے جان چھڑانی ہوگی۔