نیویارک: (ویب ڈیسک) پاکستان نے بھارت کو بڑے پیمانے پر روایتی ہتھیاروں کی فروخت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ جنوبی ایشیا میں عدم استحکام کو بڑھا رہا ہے اور علاقے میں طاقت کے توازن کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔
جنیوا میں اقوام متحدہ کے دفاتر میں پاکستان کے مستقل نمائندہ خلیل ہاشمی نے نیویارک میں جنرل اسمبلی کی تخفیف اسلحہ اور بین الاقوامی سلامتی کے امور کی فرسٹ کمیٹی میں روایتی ہتھیاروں پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جنوبی ایشیا کے لیے ہتھیاروں سے متعلق دہرے معیار کی پالیسی کو ترک کرنا چاہیے جو محدود سٹریٹجک، سیاسی اور تجارتی پہلوؤں پر مبنی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان جنوبی ایشیا میں سٹریٹجک استحکام کے قیام کے لیے پرعزم ہے جس میں روایتی طاقت کے توازن کا عنصر شامل ہے۔
پاکستانی نمائندہ نے کہا کہ پاکستان خطے میں ہتھیاروں کی دوڑ کا حصہ نہیں ہے اور نہیں ہی اس کا حصہ بننا چاہتا ہے، اس کمیٹی نے تین دہائیوں سے زیادہ عرصے کے دوران علاقائی اور ذیلی علاقائی سطحوں پر روایتی ہتھیاروں کے کنٹرول کے فروغ سے متعلق پاکستان کی قرارداد کو منظور کیا ہے جس کی بنیاد تمام ریاستوں کی غیر متزلزل سلامتی، فورسز اور روایتی ہتھیاروں کی متوازن کمی کے اصولوں پر ہے۔
بھارت کا نام لیے بغیر پاکستانی سفیر نے کہا کہ بڑے پیمانے پر ہتھیاروں کی فروخت جنوبی ایشیا کو عدم مستحکم سے دوچار کرنے والی پیش رفت ہے جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جنوبی ایشیا میں ایک ریاست ایسی ہے جس کے فوجی اخراجات دیگر تمام ممالک کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس ریاست کو روایتی ہتھیاروں کی فراخدلی سے فراہمی سے نہ صرف اس کی سٹریٹجک صلاحیتوں میں اضافے کا باعث ہے بلکہ خطے میں عدم استحکام کو ہوا دے رہی ہے، علاقائی توازن کو خطرے میں ڈال رہی ہے، دیرینہ تنازعات کے حل میں رکاوٹ بن رہی ہے، ریاست کے استثنا اور تسلط پسندانہ عزائم کو تقویت دے رہی ہے اور پائیدار امن اور ترقی کے حصول میں رکاوٹ ہے۔
پاکستانی سفیر نے کہا کہ اگرچہ روایتی ہتھیار مہلک ہتھیاروں کا پہلا درجہ ہیں لیکن ان ہتھیاروں کی فروخت کو ریگولیٹ کرنے کی کوششیں صرف جزوی طور پر کامیاب رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ روایتی ہتھیاروں میں مصنوعی ذہانت کے بڑھتے ہوئے استعمال کی وجہ سے صورتحال مزید سنگین ہو گئی ہے جس میں عالمی فوجی اخراجات پہلی بار سرد جنگ کی سطح سے تجاوز کر کے 20 کھرب ڈالر سے بڑھ گئے ہیں۔
پاکستانی ایلچی نے کہا کہ تنازعات کو روکنے کے مقابلے میں تنازعات کو بڑھانے پر 150 گنا زیادہ فنڈز خرچ کیے گئے جبکہ ان ہتھیاروں کی تجارت کا حجم بھی مسلسل بڑھ رہا ہے، اسلحہ فروخت کرنے والے ممالک اکثر تنازع میں فریقین کو مزید اسلحہ خریدنے کی ترغیب دیتے ہیں، منافع کی خواہش ناقابل تلافی رہی اور نئی مارکیٹس کی تلاش اور تخلیق جاری ہے جو زیادہ تر دنیا کے غیر مستحکم حصوں میں علاقائی ہتھیاروں کی دوڑ کا ایک سلسلہ ہے جس میں شہری آبادی کو تباہ کرنے والے غیر ریاستی عناصر بھی شامل ہیں۔