لاہور: (محمد فیضان) غازی علم دین شہیدؒ 4 دسمبر 1907ء بمطابق 8 ذی قعد 1326 ہجری بروز جمعرات کوچہ چابک سواراں محلہ سرفروشاں، سریاں والا بازارتکیہ سادھواں اندرون رنگ محل لاہور میں پیدا ہوئے۔
ان کے آباؤ اجداد کا پیشہ نجاری (ترکھان) تھا، والد کا نام ’’طالع مند‘‘ تھا۔علم دینؒ نے ابتدائی تعلیم اپنے محلہ تکیہ سادھواں کی مسجد سے شروع کی مگر پڑھائی میں دل نہ لگتا تھا۔ ان کی نسبت بڑے بھائی محمد دین پڑھائی میں زیادہ دھیان دیتے تھے۔ علم دینؒ پڑھائی میں عدم دلچسپی کے باعث اپنے خاندانی پیشہ (ترکھان) سے وابستہ ہو گئے۔
1920ء میں متعصب ہندوئوں نے مسلمانوں کے خلاف شدھی اور شنگھٹن نامی تحریکیں شروع کیں۔ ان تحریکوں کے ذریعے شردھانند جیسے متعصب ہندوئوں نے فضا کو خراب کرنے اور نفرت پھیلانے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رکھا تھا اور مسلمانوں کی دل آزاری کرنا ان تحریکوں کا مقصدتھا۔
ان تحریکوں میں لاہور کے دو متعصب پروفیسر پنڈت چموپتی اور پنڈت چنتامنی پیش پیش تھے۔ 1899ء میں متعصب ہندوئوں کی تنظیم ’’شریمتی آریہ پرتی ندھی سبھا‘‘ نے رسوائے زمانہ کتاب ’’ستیارتھ پرکاش‘‘ شائع کی۔ اس کتاب میں مسلمانوں کے خلاف زہر اگلا گیا۔ اس کتاب کا آخری ایڈیشن یکم نومبر 1927ء کو لاہور کے ایک اشاعتی ادارے راجپال پبلشر نے شائع کیا۔
اس کتاب کی اشاعت سے ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت کی فضا پیدا ہونا شروع ہوئی۔ راجپال نے ’’ستیارتھ پرکاش‘‘ کی اشاعت سے نفرت کا جو زہر پھیلایا تھا یہ ہندو مسلم قوموں کے درمیان خطر ناک اور بھیانک صورت حال اختیار کرتا جا رہا تھا۔ اسی دوران راجپال نے مسلمانوں کے غم زدہ دلوں پر نمک چھڑکنے کے لئے ایک اور شیطانی کھیل کھیلا ایک اور ناپاک نام سے کتاب شائع کر دی۔
راجپال پبلشر کی شائع کردہ اس رسوائے زمانہ کتاب کی اشاعت کے بعد مسلمانوں کا متفقہ مطالبہ یہ تھا کہ اس ناپاک کتاب کو فی الفور ضبط کیا جائے اور اس کے پبلشر راجپال کو سزائے موت دی جائے۔کروڑوں مسلمانوں میں غم و غصہ کی لہر دیکھ کر انگریز حکومت نے 24 مئی 1924ء کو شیطان صفت راجپال کے خلاف زیر دفعہ 153 تعزیراتِ ہند مقدمہ درج کر لیا۔
ماتحت عدالت نے اس ملعون کو 18 جنوری 1927ء عیسوی کو ڈیڑھ سال قید با مشقت اور ایک ہزار روپیہ جرمانہ کی سزا سنائی۔ مسلمانوں کے نزدیک اتنے بڑے جرم اور گستاخی کے لئے یہ سزا کی بجائے مذاق تھا۔ عدالت کے اس فیصلے سے مسلمانوں کے دل دْکھی تھے۔ملعون راجپال کے متعلق عدالتی فیصلے نے مسلمانوں کے جذبات کے الائو پر تیل کا کام کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے برصغیر میں راجپال ملعون اور اس کی رسوائے زمانہ کتاب کے خلاف مسلمان یک جان ہو کر اٹھ کھڑے ہوئے۔
یوں احتجاجی جلسے جلوسوں کا ایک زبردست اور منظم سلسلہ شروع ہو گیا۔دنیا بھر کے مسلمان اس ملعون کو واصل جہنم کرنے کی سعادت حاصل کرنے کی خواہش دل میں لئے لاہور کی طرف بڑھنے لگے۔
اپریل 1929ء کو علم دینؒ صبح سویرے اٹھے اور لوہا بازار پہنچے۔ اْس زمانے میں ’’آتما رام کباڑیے‘‘ کی دکان بہت مشہورتھی۔ علم دین نے ملعون راجپال کو واصل جہنم کرنے کی غرض سے چھری یہیں سے لی۔ یہ تیز دھار چھری تیرہ انچ لمبی تھی۔ علم دینؒ کے وہاں پہنچتے ہی قدرت ملعون راجپال کو اپنے انجام تک پہنچانے کے لئے کھینچ لائی تھی۔ علم دینؒ دیکھ رہا تھا کہ راجپال ایک کار سے اتر رہا ہے۔
راجپال گاڑی سے اتر کر دکان میں اپنی کرسی پر بیٹھا ہی تھاکہ اس دوران علم دین ؒبھی اس کی دکان میں داخل ہو گئے۔ اس وقت راجپال کے دو ذاتی ملازم بھی وہاں موجود تھے۔ جن کے نام کیدار ناتھ اور بھگت رام تھے۔ کیدار ناتھ تو پچھلے کمرے میں کتابیں رکھنے چلا گیا جبکہ دوسرا بھگت رام راجپال کے پاس ہی کھڑا تھا۔ علم دینؒ نے اندر آتے ہی پوچھا ’’راجپال کون ہے‘‘ تو راجپال سہمے ہوئے لہجے میں بولا ’’میں راجپال ہوں۔ کیا کوئی کام ہے؟‘‘۔
اس پر علم دین نے بجلی کی سی تیزی سے چھری اس کے سینے میں گھونپ دی اور راجپال کا کام تمام کیا۔ملعون راجپال کے قتل کے بعد علم دینؒ نے گرفتاری دے دی تھی اور یہ عاشق رسولﷺ پولیس کی حراست میں ہونے کے باوجود مطمئن تھا۔مسلمانوں نے غازی علم دینؒ کو پر جوش خراجِ عقیدت پیش کرنے اور ان کے خلاف درج شدہ مقدمے کی پیروی کے لئے مسلمان وکلاء پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی۔
جس کا نام غازی علم دین ڈیفنس کمیٹی رکھا گیا۔ اس کمیٹی کے سربراہ بیرسٹر ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ تھے۔ مئی 1929ء میں سیشن کورٹ میں غازی علم دینؒ کے مقدمہ کی سماعت کا آخری دن تھا۔ غازی علم دین کے وکیل بیرسٹر سلیم نے آپؒ کے مذکورہ بیان کا سہارا لے کر بے قصور ثابت کرنے کے لئے دلائل دئیے مگر فیصلے سے قبل ہی غازی علم دین نے بلند آ واز سے کہنا شروع کر دیا کہ گستاخ رسولﷺ کو میں نے واصل جہنم کیا ہے۔
اقبال جرم کے بعد تو کہنے کوکچھ باقی نہ رہاتھا۔ لہٰذا سیشن جج مسٹر ٹیب نے غازی علم دینؒ کے خلاف دفعہ 302 عائد کر کے 22 مئی 1929ء کوپھانسی کا حکم سنایا۔ سزائے موت کے فیصلے کے بعد غازی علم دینؒ لمحہ بھر کے لئے بھی پریشان نہ ہوئے بلکہ آہستہ آہستہ درود شریف کا ورد کر رہے تھے اور نہایت پر سکون نظر آ رہے تھے۔
31 اکتوبر1929 بروز جمعرات 26 جمادی الثانی 1348 ہجری کی صبح چار بجے کے بعد مجسٹریٹ نے غازی علم دینؒ سے ان کی آخری خواہش دریافت کی تو انہوں نے دو رکعت نماز شکرانہ ادا کرنے کی اجازت طلب کی۔ تختہ دار پر پہنچ کر رسہ ان کے گلے میں ڈال دیا گیا تھا۔پھر آنکھوں پر سیاہ پٹی باندھی گئی اور سیاہ لباس پہنا دیا گیا اور ہاتھ پائوں باندھ دئیے گئے۔ اس وقت غازی علم دین نے ارد گرد کے لوگوں کو مخاطب ہو کر کہا :’’تم گواہ رہنا کہ میں نے حرمت رسولﷺ کے لئے راجپال کو قتل کیا۔ ‘‘
اعلیٰ حکام نے فیصلہ کر لیا تھا کہ میت مسلمانوں کے حوالے نہ کی جائے کیونکہ انہیں اس بات کا خطرہ تھا کہ ایسا کرنے سے مسلمان مشتعل ہو جائیں گے ۔ لہٰذا انہوں نے غازی علم دین شہید کی میت کو میانوالی میں قیدیوں کے قبرستان میں دفنا دیا۔ چارنومبر 1929ء کو مسلمانوں کا ایک وفد ڈی مونٹ مورنس گورنر پنجاب سے ملا اور غازی علم دین شہیدؒ کی میت وصول کرنے کا مطالبہ پیش کیا۔
اس پر گورنر نے سب سے پہلا اور اہم سوال یہ کیا کہ اگر میت کے آنے سے لاہور میں ہندو مسلم فسادات شروع ہو گئے تو اس کا ذمہ دار کون ہو گا؟۔ اس کی ذمہ داری حضرت علامہ اقبالؒ نے لی۔ گورنر نے چند شرائط پیش کرتے ہوئے غازی علم دین شہیدؒ کی میت مسلمانوں کے حوالے کرنے کا وعدہ کیا۔
13 نومبر 1929ء کو مسلم وفد سید مراتب علی شاہ اور مجسٹر یٹ مرزا مہدی حسن کی قیادت میں میانوالی پہنچا۔ اس وقت کے ڈپٹی کمشنر میانوالی راجہ مہدی زمان نے وفد کی میزبانی کے فرائض سر انجام دئیے۔
میانوالی کے ایک معمار نور دین نے غازی علم دین شہیدؒ کی میت کے لئے بکس تیار کیا اور ضلعی حکام اور معمار نور دین دوسرے روز علی الصبح غازی علم دین شہیدؒ کی میت بصد احترام میانوالی میں قیدیوں کے قبرستان سے نکال کر ڈپٹی کمشنر میانوالی کے بنگلے پر لائے۔ نور دین نے بتایا کہ دو ہفتے گزر جانے کے بعد بھی میت میں ذرا برابر تعفن نہیں تھا بلکہ مسحور کن خوشبو آ رہی تھی۔
غازی علم دین شہیدؒ کی نماز جنازہ لاہور میں چار مرتبہ پڑھائی گئی۔ شہید ناموسِ رسالتﷺ کے جنازے میں تقریباً 6 لاکھ مسلمان شریک ہوئے۔ علامہ اقبالؒ نے شہید کی میت کو اپنے ہاتھوں سے لحد میں اتارا۔ اس موقع پر علامہ اقبالؒ نے غازی علم دین شہیدؒ کا ماتھا چوما اور کہا:’’اسی تے گلاں کر دے رہ گئے تے ترکھاناں دا منڈا بازی لے گیا۔‘‘اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو عشق رسولﷺ کی سعادت نصیب فرمائے، آمین۔
محمد فیضان لکھاری اور تاریخ سے گہری دلچسپی رکھتے ہیں ،متعدد کتابوں کے مصنف ہیں،ان کے مضامین ملک کے مؤقر جرائد میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔