لاہور: (ویب ڈیسک) وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ کہ آرمی چیف کی تعیناتی کا پراسس پیر سے شروع ہو جائے گا۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈارنے صدر مملکت عارف علوی سے ملاقات میں آرمی چیف کی تعیناتی پر بات کی اور اتفاق رائے پیدا کیا گیا۔
صدر مملکت ڈا کٹر عارف علوی سے اسحاق ڈار کی ملاقات
ملک میں مجموعی سیاسی صورتحال اور اہم تقرری کے معاملے پر وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے درمیان ایوان صدر میں اہم ملاقات ہوئی ہے۔
ایوان صدر کے اعلامیے کے مطابق صدر مملکت کو سیلاب سے متاثرہ علاقوں اور متاثرین کی بحالی کے حوالے سے بھی بریفنگ دی گئی، معیشت اور خزانہ سے متعلق مختلف امور پر بھی گفتگو ہوئی، وزیر خزانہ نے صدر مملکت کو عوام کیلئے اقدامات بارے آگاہ کیا۔
ذرائع کے مطابق ملاقات میں حکومت اور تحریک انصاف کے مابین جاری کشیدگی کو کم کرنے پر گفتگو ہوئی، اسحاق ڈار نے موجودہ صورتحال پر پی ڈی ایم حکومت کے موقف سے آگاہ کیا، ملاقات میں آئندہ چند روز میں ہونے والی پیشرفت پر بھی بات چیت ہوئی۔
ملاقات میں سیاسی معاملات کو افہام و تفہیم سے حل کرنے پر تبادلہ خیال ہوا جبکہ وفاقی وزیر خزانہ نے وزیراعظم شہباز شریف کا اہم پیغام بھی صدر مملکت کو پہنچایا۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پیغام دیا کہ صدر مملکت باہمی احترام اور سیاسی اعتدال کے لئے کردار ادا کریں، آئینی و قانونی امور پر ڈیڈلاک نہیں ہونا چاہیے۔
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا کہنا تھا کہ سیاسی امور کو بہتر ماحول اور قانونی و آئینی دائرے میں ہی حل کیا جاسکتا ہے۔
اس موقع پر صدر مملکت کی جانب سے عمران خان کا مطالبہ اسحاق ڈار کے سامنے رکھا گیا۔
وزیر دفاع خواجہ آصف:
نجی ٹی وی سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر دفاع سے سوال پوچھا گیا کہ آپ نے کہا تھا کہ 18 نومبر تک یہ عمل شروع ہو جائے گا لیکن آخری اطلاعات تک سمری ابھی تک نہیں آئی ہے، تو پھر آپ کوئی اگلی تاریخ دیں گے۔ خواجہ آصف نے جواب میں بتایا کہ کل ویک اینڈ (ہفتے کا آخری دن) ہے، اس پر کیا پروسیس شروع ہونا ہے، یہ عمل پیر سے شروع ہو جائے گا، اس کا فیصلہ اگلے ہفتے میں آ جائے گا اور اگلے ہفتے تک نئے آرمی چیف کا نام بھی سامنے آجائے گا۔ انشا اللہ تعالیٰ 29 نومبر کو تقریب بھی ہو جائے گی، سیاسی لوگوں نے کنفیوژن پھیلائی ہوئی ہے، عمران خان نے اپنے مفادات کے لیے اس معاملے کو متنازع بنانے کی پچھلے کئی ماہ سے بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ وہ (عمران خان) کہتے ہیں کہ اگر ان کی مرضی کا (آرمی چیف) نہیں لگتا تو کسی نہ کسی طرح یہ سارا مسئلہ متنازع ہو جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک بات بڑی وضاحت سے کہنا چاہتا ہوں کہ وہ (عمران خان) بار بار کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف اپنی مرضی کا (آرمی چیف) لگائیں گے، یا اس سے وہ اپنے کیسز ختم کروائیں گے، یہ آرمی کے پانچ، چھ تین سٹار جنرلوں پر سنگین الزامات لگا رہے ہیں۔ ان جنرلوں نے 30، 35 سال ملک کی خدمت کی ہوئی ہے، پی ایم اے سے لے کر تھری اسٹار جنرل بننے تک ان سب کے بہترین کیرئیر ہیں، یہ سب قابل احترام ہیں، ان کے اوپر یہ الزامات لگانا کہ کوئی بھی سیاست دان ان کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرے گا۔
خواجہ آصف نے کہا کہ عمران خان کا جھگڑا اسی بات پر ہوا، یہ سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتے تھے اور انہوں نے انکار کر دیا، ان کا کہنا تھا کہ آپ نیوٹرل نہیں ہوسکتے، آپ کو میری سائیڈ لینی پڑے گی۔ جس طرح کے الزامات انہوں نے لگائے ہیں، کسی سیاستدان نے 75 سال میں پاک فوج کی لیڈرشپ پر اس قسم کے کوئی الزامات نہیں لگائے۔
ان سے سوال پوچھا گیا کہ قیاس آرائیاں یہ پیدا ہو رہی ہے کہ شاید عسکری قیادت اور حکومت کے درمیان بھی نام پر اتفاق نہیں ہو رہا ہے جس کی وجہ سے سمری نہیں آرہی ہے، کیا ایسا ہے؟ خواجہ آصف نے کہا کہ وزیراعظم کی طرف سے وزارت دفاع کو خط جاتا ہے کہ آپ ڈوزیئر بھیجیں، جس میں 5، 6 نام ہوتے ہیں، وہ وزیر اعظم کو بھیج دیے جاتے ہیں، وزیراعظم کا صوابدید ہوتا ہے کہ ایک افسر کو جوائنٹ چیف آف اسٹاف اور ایک افسر کو چیف آف اسٹاف بنا دیں۔ یہ پروسیس کئی دہائیوں سے چل رہا ہے، اس میں کوئی ابہام نہیں ہے لیکن عمران خان ابہام یا شبہ پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
وزیردفاع نے کہا کہ جو نام ہوا، آرمی کی قیادت اور وزیراعظم میں مکمل اتفاق ہوگا، باوجود اس بات کے آئینی طور پر صوابدید وزیراعظم کا ہے، پھر بھی ادارے کا معاملہ ہے، جو ہمارے دفاع کی سب سے بڑی دیوار ہے، چاہے وہ بیرونی دشمن ہو یا اندرونی دشمن ہو۔ جو نام آئیں گے، فوج کا پروسیس ہے جس کے تحت وہ نام بھیجتے ہیں، اس میں سے ایک نام پر اتفاق رائے ہوگا، وزیراعظم صوابدیدی اختیارات استعمال کرکے سمری صدر کو بھیج دیں گے، اور وہ نامزد ہو جائیں گے۔ تعیناتی پر اتحادیوں کے ساتھ کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں ہے، بالکل اتفاق رائے سے ہوگا، شہباز شریف نے تمام تر فیصلے اتفاق رائے سے کیے ہیں۔
مجوزہ قانون سازی (آرمی ایکٹ) سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ میں نے ٹوئٹ کر دیا تھا کہ وہ قانون سازی نہیں تھی، 2019 کا ایک فیصلہ ہے، اس کی ضرورت تھی، جو گزشتہ تین، چار سال میں نہیں کی گئی، میرا خیال ہے کہ سپریم کورٹ کا توسیع کے حوالے سے جو فیصلہ تھا، اس کے ساتھ ایک نوٹ لکھا ہوا تھا، اس تعیناتی سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈارنے صدر سے ملاقات میں آرمی چیف کی تعیناتی پر بات کی اور اتفاق رائے پیدا کیا گیا۔ پانچ سنیئرجنرلزمیں سے ہی ایک آرمی چیف تعینات ہو گا۔
وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ
نجی ٹی وی کیساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ میرا ذاتی تجربہ ہے حساس نوعیت کے فیصلے سے پہلے اتفاق رائے ہوتا ہے، اس اہم تعیناتی پر اختیار وزیراعظم کا ہے، اس پر اتفاق رائے ہو چکا ہے، تعیناتی کا معاملہ پیپر پر آنا باقی رہ گیا ہے، رسمی اعلان باقی ہے، مشاورت سے مراد کسی کا اختیار تو نہیں ہوتا، وزیراعظم کسی سے بھی پوچھ سکتےہیں، بالآخرفیصلہ انہوں نے ہی کرنا ہے۔
رانا ثنا اللہ نے کہا کہ یہ کسی کو سرپرائز دینے والی بات نہیں ہے، وزیراعظم مشاورت کر چکے ہیں، ایک دو دنوں میں پیپرپر آجائے گا، اس میں کوئی حرج نہیں، وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی مدد جہاں درکار تھی وہ حاصل کی گئی ہے، کوئی ایسی بات نہیں کرنا چاہتا فیصلے سے پہلے قیاس آرائی ہو، میری رائے میں تعیناتی پر اس سے زیادہ تاخیر شاید مناسب نہیں ہو گی، ایک دو دنوں میں یہ فیصلہ سامنے آجائےگا، فیصلے سے مراد آرمی چیف کی تعیناتی ہے۔
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ عمران خان کو کسی کی عزت کا خیال نہیں، نوازشریف نے جس کو آرمی چیف مقرر کیا کسی سے ایسی بات نہیں کی جس سےعمران خان منسوب کر رہے ہیں، پی ٹی آئی چیئر مین کو نہ اپنی عزت کا خیال ہے نہ کسی اور کی عزت کا، اس نے2014 سے اب تک مسلسل غط بیانی کی، توہین کرنےکی کوشش کی، عمران خان کو معلوم ہےکہ وقت سے قبل الیکشن نہیں ہوسکتا، لانگ مارچ میڈیا میں ہی ہے اور کہیں نظر نہیں آ رہا۔
آصف زرداری
اپنے ایک بیان میں سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ ہم پاک فوج میں پروموشن کے نظام پر مضبوط یقین رکھتے ہیں، تمام تھری اسٹار جنرلز برابر ہیں اور آرمی کی سربراہی کے مکمل اہل ہیں، سپہ سالار کی تعیناتی کا معاملہ کسی صورت بھی سیاسی نہیں ہونا چاہئیے۔ یہ اقدام ادارے کو نقصان پہنچائے گا۔ آرمی چیف کی تعیناتی قانون کے مطابق وزیراعظم کریں گے۔
شہباز شریف
خیال رہے کہ اس سے قبل وزیراعظم شہباز شریف علی اعلان کہہ چکے ہیں کہ اہم ترین تقرری آئینی معاملہ ہے اور اس کو آئین کے مطابق دیکھا جائے گا۔
عمران خان
آج سینئر صحافیوں کے ساتھ غیر رسمی گفتگو کے دوران سابق وزیراعظم نے کہا کہ موجودہ حکومت آرمی ایکٹ میں ترمیم اپنے فائدے کیلئے کررہی ہے، آرمی ایکٹ میں ترمیم کرکے مسلح افواج کو پنجاب پولیس کے برابر لانا چاہتے ہیں، آرمی ایکٹ میں ہونے والی مجوزہ ترمیم اعلیٰ عدلیہ میں چیلنج ہو جائے گی، نوازشریف وہ آرمی چیف لگانا چاہتا ہے جو مجھے نااہل کرے اور نوازشرہف کے کیسز ختم کریں، پھر اسے اقتدار میں لائیں۔ مسلح افواج کے سربراہ کی تعیناتی چیف جسٹس سپریم کورٹ کی طرح ہونی چاہیے، صدر عارف علوی کی آرمی چیف سے ملاقات ہوئی ہے، ان کی بیک ڈور رابطوں کے سلسلے میں آرمی چیف سمیت کسی کے ساتھ لاہور میں ملاقات نہیں ہوئی، صدر علوی کے ساتھ ملاقات ضرور ہوئی ہے مگر اس ملاقات کا واحد ایجنڈا جلد شفاف انتخابات تھا۔
فواد چودھری:
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر پیغام جاری کرتے ہوئے فواد چودھری نے لکھا کہ آرمی چیف کی تقرری کے ضمن میں صدر مملکت اپنی آئینی ذمہ داری ادا کریں گے، صرف یہ واضح کر دوں صدر مملکت جو بھی قدم اٹھائیں گے اسے عمران خان کی مکمل حمایت حاصل ہو گی۔
بلاول بھٹو زرداری
ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ آرمی چیف کی تعیناتی کا سوال متعلقہ وزارت سے پوچھیں۔
چودھری شجاعت حسین :
پاکستان مسلم لیگ ق کے سربراہ چودھری شجاعت حسین نے آرمی چیف کی تعیناتی کے معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو بڑے سیاستدان آرمی چیف کی حمایت یا مخالفت میں بیان دے رہے ہیں انہیں یہ قول یاد رکھنا چاہئیے، جس کا کام اسی کو ساجھے، ایسا لگتا ہے کہ اپنی پسند کا آرمی چیف مقرر ہونے کے بعد انھوں نے بارہ بور بندوق کی مہارت حاصل کرنا ہے۔