اسلام آباد: (دنیا انویسٹی گیشن سیل) پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیرِاعظم عمران خان کو نیب نے القادر ٹرسٹ کرپشن کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطے سے گرفتار کر لیا ہے۔
نیب کی جانب سے عمران خان کی گرفتاری کیلئے وارنٹ یکم مئی کو جاری ہوا، سابق وزیر اعظم عمران خان کو نیب آرڈیننس 1999 کے سیکشن 9 اے، شق 34 اے، 18 ای اور 24 اے کے تحت کرپشن اور بدعنوانی کے الزام پر گرفتار کیا گیا۔
القادر ٹرسٹ کرپشن کیس
مئی 2019 میں سابق وزیر اعظم عمران خان نے جہلم میں القادر یونیورسٹی برائے تصوف، سائنس اور ٹیکنالوجی بنانے کا اعلان کیا، اسی سال عمران خان کی کابینہ نے رئیل اسٹیٹ ٹائیکون کا برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کی جانب سے اکاؤنٹس منجمد کرنے اور فنڈز کی پاکستان کو واپسی سے متعلق معاملہ اٹھایا۔
برطانوی ایجنسی نے پرائیویٹ ہاؤسنگ سوسائٹی کے سی ای او کے خلاف تحقیقات بند کر دیں اور تصفیے کے تحت بیرون ملک اکاؤنٹ سے تقریباً 140 ملین پاؤنڈز پاکستان کو واپس بھیج دیئے، یہ رقم حکومت کے اکاؤنٹ میں جانے کے بجائے سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں منتقل کی گئی، جس کے بعد سوالات اٹھے کہ رقم سرکاری اکاؤنٹ میں منتقل کی جانی تھی یا سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں جمع ہونی تھی کیونکہ پرائیویٹ ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک نے سپریم کورٹ کو 460 ارب روپے ادا کرنے پر رضا مندی ظاہر کی تھی۔
سابق وزیر اعظم عمران خان نے کابینہ کے فیصلے کے چند ہفتوں کے اندر القادر یونیورسٹی پراجیکٹ کیلئے ٹرسٹ رجسٹر کیا جو بعد میں یونیورسٹی کیلئے ڈونر بن گیا، پرائیویٹ ہاؤسنگ سوسائٹی نے معاہدے میں تصدیق کی ہے وہ القادر یونیورسٹی کے قیام اور اسے چلانے کے تمام اخراجات برداشت کرے گی، منصوبے کے قیام اور اسے چلانے کیلئے ٹرسٹ کو فنڈز فراہم کیے جائیں گے۔
ٹرسٹ رجسٹریشن کے اگلے ہی ماہ پرائیویٹ ہاؤسنگ سوسائٹی نے جہلم میں تقریباً 460 کنال زمین خرید کر زلفی بخاری کے نام منتقل کر دی، سٹیمپ ڈیوٹی کی مد میں زمین کی قیمت 243 ملین روپے مقرر کی گئی، بعد ازاں زلفی بخاری نے یہ زمین ٹرسٹ کے نام کر دی، جولائی 2020 سے جون 2021 تک ٹرسٹ کی کل آمدنی 101 ملین روپے تھی جبکہ عملے کی تنخواہوں سمیت کل اخراجات تقریباً 8.58 ملین روپے تھے۔
22 اپریل 2020ء میں عمران خان نے بطور وزیر اعظم القادر ٹرسٹ اسلام آباد کے چیئرپرسن کی حیثیت سے سب رجسٹرار اسلام آباد کو خط لکھا کہ ظہیر الدین بابر اعوان اور ذوالفقار عباس بخاری کو ٹرسٹ سے نکال دیا گیا ہے اور ٹرسٹ کا دفتر بنی گالہ ہاؤس میں منتقل کر دیا گیا، خط کے ساتھ ترمیم شدہ ٹرسٹ ڈیڈ پر دستخط کر کے جوائنٹ سب رجسٹرار اسلام آباد کو بھیج دیا گیا، جنوری 2021 سے دسمبر 2021 کے دوران القادر ٹرسٹ کو 180 ملین روپے کے عطیات موصول ہوئے۔
29 نومبر 2021 کو سابق وزیر اعظم عمران خان نے القادر یونیورسٹی کے اکیڈمک بلاکس کا افتتاح کیا، ابتدائی طور پر القادر یونیورسٹی میں 500 طلباء کی گنجائش رکھی گئی، جسے مرحلہ وار مزید بڑھایا جائے گا، افتتاح کے موقع پر چودھری فواد حسین کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی سوشل سائنسز میں ایک نئی جہت کا اضافہ کرے گی، امید ہے یہ ایک عالمی معیار کا ادارہ بنے گا جس میں تصوف، اسلام اور سائنس کے سکالرز تیار ہوں گے۔
14 جون 2022ء کو وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ نے منی لانڈرنگ کیس میں رئیل اسٹیٹ فرم کو تحفظ فراہم کرنے کے عوض نجی ہاؤسنگ سوسائٹی سے 5 ارب روپے اور سینکڑوں کنال اراضی لی، معاملہ صرف یہیں ختم نہیں ہوا، پرائیویٹ ہاؤسنگ سوسائٹی نے حکومت کی جانب سے 50 ارب روپے کے تحفظ کے بعد ایک معاہدہ کیا، عمران اور ان کی اہلیہ کی ملکیت والے ٹرسٹ کو 530 ملین روپے کی 458 کنال اراضی بھی الاٹ کی۔
یکم دسمبر 2022ء کو قومی احتساب بیورو (نیب) نے پی ٹی آئی کے دور حکومت میں 190 ملین پاؤنڈ (50 ارب روپے) کے تصفیے سے متعلق کیس میں نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک اور دیگر فائدہ اٹھانے والوں کو طلب کیا، نیب پرائیویٹ ہاؤسنگ سوسائٹی کی جانب سے ضلع جہلم میں القادر ٹرسٹ یونیورسٹی کو 458 ایکڑ اراضی عطیہ کرنے کی بھی تحقیقات کر رہا ہے۔
سب رجسٹرار سوہاوہ کے دفتر میں ’’انڈومنٹ فنڈ برائے القادر انسٹی ٹیوٹ‘‘ کے عنوان سے ایک ٹرسٹ ڈیڈ رجسٹر کی گئی، اس میں ٹرسٹیز کے نام بشریٰ خان، فرحت شہزادی اور ڈاکٹر عارف نذیر بٹ تھے، القادر یونیورسٹی ٹرسٹ پروجیکٹ نے اپنے ویب پیج - alqadir.edu.pk میں خود کو ایک یونیورسٹی کے طور پر بتایا ہے، جب کہ حقیقت میں یہ ایک کالج ہے کیونکہ ڈگری دینے کیلئے منظوری کی درخواست پنجاب ہائر ایجوکیشن کے پاس زیر التواء ہے۔