اسلام آباد: (تحریر: عدیل وڑائچ) قومی اسمبلی کی مدت آئندہ ماہ ختم ہو رہی ہے، اپنے ایک سال اور دو ماہ کے مختصر سے دور میں اتحادی حکومت مسلسل اقتصادی مسائل سے دوچار اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باعث دباؤ کا شکار رہی تاہم سیاسی کھیل کے آخری اوور میں حکومت کچھ ایسی کامیابیاں ضرور حاصل کر چکی ہے کہ عوام میں جانے کیلئے اس کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔
حکمران جماعت (ن) لیگ اور اس کے اتحادی اب سے چند ہفتے قبل تک انتخابات سے کتراتے نظر آ رہے تھے کیونکہ ان کے پاس عوام میں جانے کیلئے نہ تو کوئی بیانیہ تھا نہ ہی بتانے کیلئے کوئی کارکردگی، آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹینڈ بائی معاہدہ ہوتے ہی ملک میں معاشی سمت کا تعین ہوا تو سیاست کا رخ بھی بدلنے لگا ہے، اپریل 2022ء سے اب تک بیک فٹ پر نظر آنے والی حکومت فرنٹ فٹ پر کھیلتی نظر آنے لگی ہے، مہنگائی کی شرح میں کمی کی خوشخبریاں بھی آنے لگی ہیں، گزشتہ ماہ 38 فیصد پر پہنچ جانے والی مہنگائی کم ہو کر 29 فیصد پر آگئی اور سٹاک مارکیٹ نے بھی ایک ہی روز میں تاریخ رقم کر دی، ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر بھی سنبھلنے لگی ہے۔
ملک سے غیر یقینی صورتحال کا خاتمہ تو ابھی نہیں ہو سکا مگر آنے والے مہینوں میں حوصلہ افزا خبروں کا سلسلہ ضرور شروع ہو گا، پی ڈی ایم حکومت کے آنے کے بعد ڈیفالٹ سے متعلق قیاس آرائیوں نے ہر پاکستانی کو پریشان کر رکھا تھا جس کا سارا منفی اثر حکومت پر پڑتا دکھائی دے رہا تھا ’مگر اب حکومت کے ناقدین بھی کہتے سنائی دیتے ہیں کہ پاکستان ڈیفالٹ سے بچ گیا ہے، ملک میں سرمایہ کاری کی فضا بنتی دکھائی دے رہی ہے، معیشت کو مستحکم بنانے کیلئے سول اور عسکری قیادت کی مشترکہ کاوشوں سے سرمایہ کاری کونسل نے باقاعدہ کام کا آغاز کر دیا ہے اور غیر ملکی سرمایہ کاری کا ماحول بنتا دکھائی دینے لگا ہے۔
(ن) لیگی وزراء کہتے سنائی دیتے ہیں کہ الیکشن میں جانے کیلئے اب ایک بہتر ماحول بن چکا ہے اور اس بیانیے کیساتھ عوام کے پاس جانا چاہیے کہ ان کی حکومت کے پاس وقت کم تھا اور سابق حکومت کی جانب سے پیدا کردہ مسائل زیادہ تھے، ان تمام چیلنجز کے باوجود حکومت نے ملک کو ڈیفالٹ سے بچایا، مہنگائی کی شرح میں کمی کا آغاز ہو گیا، ڈالر نیچے آنے لگا ایسے میں اگر انہیں نیا مینڈیٹ ملتا ہے تو ملک کو اس معاشی گرداب سے نکال لیا جائے گا، وہ پی ڈی ایم حکومت جو اقتدار کے ایوان میں آنے کے بعد معاشی چنگل میں پھنس کر عام آدمی کا سامنا کرنے سے خوفزدہ تھی اب پُر اعتماد دکھائی دینے لگی ہے، ایسے میں قومی اسمبلی کی مدت سے دو روز قبل یعنی 10 اگست کو اسمبلی تحلیل کرنے کے آپشن پر کافی حد تک اتفاق رائے ہو چکا ہے تاہم نگران سیٹ کے حوالے سے فیصلہ ہونا باقی ہے، نگران سیٹ اپ نے کتنا چلنا ہے؟ اس سوال کا جواب نگران سیٹ اپ چلانے والے چہروں کے سامنے آتے ہی مل جائے گا، جو تین چار نام زبان زد عام ہیں ان سے متعلق تاحال کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا، البتہ موجودہ صورتحال میں معاشی بیک گراؤنڈ رکھنے والی شخصیات کے نام ضرور زیر غور ہیں۔
تجزیہ کاروں کے نزدیک اگر معاشی بیک گراؤنڈ رکھنے والی شخصیت کے نام کا قرعہ نکلتا ہے تو نگران سیٹ اپ طویل بھی ہو سکتا ہے، پارلیمنٹ نے الیکشن کی تاریخ کا اختیار صدر سے لے کر الیکشن کمیشن آف پاکستان کو دے دیا ہے جس کے بعد الیکشن کمیشن کی جانب سے دی گئی 8 اکتوبر کی تاریخ میں تبدیلی صدر مملکت سے مشاورت کے بغیر بھی ہو سکے گی، اگرچہ الیکشن کمیشن آف پاکستان انتخابی تیاریوں سے متعلق آئے روز اقدامات کر رہا ہے اور سیاسی جماعتوں سے انتخابی نشان حاصل کرنے کیلئے درخواستیں بھی طلب کر لی ہیں مگر اس کے باوجود ابھی انتخابی تاریخ سے متعلق غیر یقینی صورتحال موجود ہے۔
انتخابات کب ہوں؟ دوبئی میں آصف علی زرداری اور میاں محمد نواز شریف کے درمیان ہونے والی ایک سے زائد ملاقاتوں میں بھی کوئی حتمی اور ٹھوس فیصلہ نہیں ہوسکا، اسمبلیوں سے رخصت ہونے کیلئے تو کافی حد تک اتفاق رائے ہو چکا ہے تاہم انتخابات کے انعقاد پر غیر یقینی صورتحال اپنی جگہ موجود ہے، حکومت کے سب سے بڑے سیاسی حریف سابق وزیر اعظم کیلئے توشہ خانہ اور 190 ملین ڈالرز کرپشن کیس میں مشکلات کھڑی ہو گئی ہیں، ایک فوجداری کیس جو اسلام آباد کے ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت میں ہے اور دوسرا وہ معاملہ جو نیب کے سامنے ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ نے توشہ خانہ کیس کو ناقابل سماعت قرار دینے کی بجائے اسے ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت میں واپس بھجواتے ہوئے حکم دیا ہے کہ آئندہ سات روز میں فیصلہ کیا جائے کہ توشہ خانہ کیس قابل سماعت ہے یا نہیں’ جس کا باقاعدہ آغاز آج سے ہو رہا ہے۔
یہ معاملہ آئندہ سات روز میں اگر قابل سماعت قرار دیا جاتا ہے تو سابق وزیر اعظم کے سیاسی کیرئیر کیلئے سب سے خطرناک کیس یہی ہے جس میں توشہ خانہ سے تحائف لے کر مالی گوشواروں میں ظاہر نہ کرنے کا الزام ہے اور سزا کی صورت میں یہ نااہلی پر منتج ہو سکتا ہے، سابق وزیر اعظم کی دوسری مشکل راتوں رات ہونے والی وہ قانون سازی ہے جس کے تحت ان کی گرفتاری کیلئے قانونی راہ ہموار ہونے کی چہ مگوئیاں شروع ہو چکی ہیں، یہ قانون آرڈیننس کی صورت میں ایک ایسے وقت پر جاری کیا گیا جب صدر مملکت عارف علوی حج کیلئے سعودی عرب میں موجودہ تھے اور قائم مقام صدر چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے دستخط سے آرڈیننس جاری کیا گیا۔
نئے نیب آرڈیننس کے مطابق تفتیش میں تعاون نہ کرنے پر چیئرمین نیب ملزم کے وارنٹ گرفتاری جاری کر سکتے ہیں، ریمانڈ کی مدت کو بڑھا دیا گیا ہے جبکہ کسی انکوائری کیخلاف عدالت سے رجوع کرنے کا آپشن بھی ختم کر دیا گیا ہے، ایسے میں سابق وزیر اعظم کی نااہلی کے کیس اور ان کی گرفتاری کی ممکنات کا موجودہ صورتحال اور الیکشن سے متعلق فیصلوں سے تعلق دکھائی دیتا ہے، انتخابات اکتوبر نومبر میں ہوں یا کسی بھی وجہ سے کچھ تاخیر سے، پی ڈی ایم حکومت اپنی اننگز کے آخری اوور میں عوامی فیصلے کر کے جانے کا ارادہ رکھتی ہے۔