لاہور: (مہر محمد بخش نول) یہ سندھ کا قدیم تاریخی شہر ہے جو قدیم سندھ کا دارالحکومت رہا ہے، زمانہ قدیم میں ’’ ارور‘‘ کے نام سے مشہور تھا اب’’ اروڑ‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے، روہڑی شہر سے جنوب کی طرف 6 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یونین کونسل کا درجہ حاصل ہے جس کی آبادی چھ ہزار کے قریب ہے۔
لڑکے اور لڑکیوں کے ہائی سکولز قائم ہیں، یہیں پر قاری محمد عارف بھٹی کا 300 سال پرانا دینی مدرسہ قائم ہے، میمن مدرسہ بھی ہے، مسد اورنگ زیب قائم ہے، محمد بن قاسم کی بنائی ہوئی مسجد دریافت ہوئی تھی یہ مسجد ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، اس کی ایک دیوار موجود ہے، اس مسجد کے لئے 13 ایکڑ رقبہ وقف ہے، تنظیم فکر و نظر سکھر جو جماعت اسلامی کا ذیلی ادارہ ہے اس تنظیم نے مسجد بنانے کی کوشش کی لیکن حکومت سندھ کی وزیر سسی پلیجو نے یہ کہہ کر کام رکوا دیا کہ حکومت سندھ خود مسجد بنائے گی۔
ان کی وزارت کا دور ختم ہوگیا لیکن کام کا آغاز نہ ہو سکا، صدر ضیاء الحق بھی یہاں تشریف لائے، ان کی یاد میں ایک پتھر لگا ہوا ہے، مسجد کے امام نبی بخش بھٹی ہیں وہ سیاحوں کو ٹھنڈا پانی پلا کر اروڑ کی پوری تاریخ بیان کر دیتے ہیں، ان کے بیان کے مطابق مقامی لوگ مسجد کے رقبہ پر قبضہ کرنے کے چکر میں ہیں راقم الحروف اور محمد سعید صاحب وہاں دو نفل تحیۃ المسجد ادا کر کے واپس روانہ ہو گئے۔
راجہ داہر کا کالکا دیوی مندر بھی یہاں موجود ہے، یہ اروڑ سے 3 کلو میٹر دور ہے جو ایک پہاڑ کی سرنگ کے اندر بنا ہوا ہے، پہاڑی میں سرنگ قدرتی طور پر بنی ہوئی نظر آتی ہے جس کے اندر کالی ماتا دیوی کا بت بنا کر رکھا گیا ہے، سری چند بیٹا گرونانک کا بت بھی موجود ہے، جواہر لال اور مہیش لال خدمتگار ہیں، ان کے بقول اس مندر کو بنے ہوئے 4 لاکھ سال ہو چکے ہیں جو ایک مفروضہ نظر آتا ہے، ستمبر میں چاند کی چودہ تاریخ کو میلہ لگتا ہے جس میں پورے سندھ سے لوگ آتے ہیں۔
ہندو کمیونٹی میلے کے تمام اخراجات برداشت کرتی ہے، یہاں پر زائرین کے بیٹھنے کیلئے بڑا ہال ہے، اس مندر کے برعکس مسجد محمد بن قاسم کی آخری دیوار بھی گرنے والی ہے، 1300 سال سے مسلمان حکمران برصغیر کی پہلی مسجد کی مرمت اور تعمیر نو کرنے میں ناکام ہیں، سکندر اعظم کے حملے کے وقت یہاں کا راجہ موسیٰ کانوس تھا اس دور میں بھی اروڑ آباد اور خوشحال شہر تھا، اس لئے راجہ کا دارالحکومت رہا، 712ء میں راجہ داہر کو شکست دے کر محمد بن قاسم نے یہاں پر مسجد تعمیر کرائی جس کے آثار اب بھی موجود ہیں، یہ شہر ملتان کا ہم عصر ہے۔
محمد بن قاسم نے قاضی اسماعیل جو محمد شیہانی بن عثمان کی اولاد سے تھے انہیں الور میں قاضی مقرر کیا، ایک اور الور کے قاضی اسماعیل 600 ہجری میں تھے انہوں نے فتح سندھ کا احوال عربی زبان میں لکھا، اسے علی بن حامد کوفی اوچ والے نے عربی سے فارسی میں ترجمہ کیا، یہی کتاب چچ نامہ بنی قاضی ستابہ الور اور بکھر کے محاسب تھے۔
مولانا نعمت اللہ بھٹی عالم دین تھے رشید بھٹی سندھی زبان کے شاعر اور صاحب دیوان تھے ان کا تعلق اروڑ سے تھا، دلورائے علاقہ ڈیرہ غازی خان، اور ڑاوربرہمن کا حاکم تھا، اروڑ کی بربادی کے بارے میں میر علی شیر قانع ٹھٹھووی اپنی کتاب ’’تحفہ الکرم‘‘ اور ابوظفر ندوی ’’تاریخ سندھ‘‘ مین ایک قصہ تحریر رکتے ہیں کہ دلورائے غالباً عمر سومرا سے پہلے تھا، اس کی حکومت شمال میں ڈیرہ غازی خان اور جنوب میں حیدرآباد کے قریب تک تھی اور اس کا پایہ تخت ارور تھا جو آج کل معمولی قصبہ ہے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پھونگر دوم سومرا کے آخری عہد یا خفیف دوم کے زمانہ میں اس نے ملک پر قبضہ کر لیا، یہ شخص بڑا ظالم تھا، ہر تاجر جو اس کے ملک سے گزرتا، اس کا نصف مال لے لیتا، کہتے ہیں کہ ایک تاجر (یاشہزادہ بہ لباس تاجر) حج کی نیت سے اس ملک میں وارد ہوا جس کا نام سیف الملوک اور اس کی بیوی بدیع الجمال تھی، دلورائے نے ان کو بھی بہت پریشان کیا، تاجر دعا و زاری کے ساتھ تدبیر و زور سے بھی کام لیا۔
مشہور ہے کہ مایوس انسان کبھی کبھی مافوق الفطرت کام بھی کر بیٹھتا ہے، سیف الملوک نے بھی ایسا ہی کیا کہ کثیر دولت خرچ کر کے بے شمار مزدوروں کے ذریعے ایک رات میں پہاڑ (ٹیلہ) کھود کر اتنا راستہ بنا لیا جس سے ایک کشتی نکل سکے چنانچہ وہ اسی پر سوار ہو کر بھاگ نکلا، اس نے چلتے وقت ایک پشتہ بھی بنوایا جس سے وہ ندی جو اروڑ کے پاس بہتی تھی اس کا رخ دوسری طرف ہوگیا۔
دلورائے کو جب معلوم ہوا تو اس نے سیف الملوک کو گرفتار کرنے کی بڑی کوشش کی مگر ناکام رہا، دلورائے کے ظلم سے تاجروں کی آمد بند ہوگئی، ادھر دریا کا رخ بدل جانے سے جو زراعت کو نقصان پہنچا وہ زیادہ تباہ کن تھا، کچھ ہی دنوں کے بعد شہر میں خاک اڑنے لگی، لوگ اس جگہ سے ہجرت کر کے دوسری جگہ چلے گئے، آخر یہ شہر ویران ہوگیا، دلورائے بھی وہاں سے برہمن آباد چلا آیا۔
اس قصبے کے دو بازار ہیں ان میں جھنڈا بازار اور بدر الدین بازار ہیں جن کے ذریعے تجارت اور خریدو فروخت ہوتی ہے، ایک کاٹن فیکٹری اور پتھر توڑنے کا ایک یونٹ کام کر رہا ہے یہاں سے پتھر اندرون و بیرون ضلع بھجوایا جاتا ہے، کیلا اور کھجور کے باغات ہیں، چاول، کپاس اور گنا پیدا ہوتا ہے، نارا نہر اور ٹیوب ویل کے ذریعے علاقہ سیراب ہوتا ہے ساتھ ہی نہے ٹکر کا پہاڑ ہے جو چار حصوں میں منقسم ہے اور دیکھنے کے قابل ہے۔
آباد اقوام میں، بھٹی، بھلڑو، سروہی، میمن، شیخ، بانگا، سید اور ہندو شامل ہیں انہیں کے نام پر محلہ جات قائم ہیں، سڑک کے ذریعے روہڑی سے منسلک ہے جس پر ہر وقت ٹریفک رواں دواں رہتی ہے، شاہ شکر گنج، لعل شہباز دور کے بزرگ تھے، ان کا مزار پہاڑی پر واقع ہے جہاں ہر سال میلہ لگتا ہے، شیخ محمود قطب کی زیارت گاہ بھی بنی ہوئی ہے یہ مخدوم جلال جہانیاں کے مرید تھے، ان کے علاوہ فقیر محمد عارف بھٹی، سواگن ڈواگن کے مزارات بھی موجود ہیں جو مرجع خلائق ہیں۔
مہر محمد بخش نول ایک معروف محقق، ادیب اور مصنف ہیں، زیر نظر مضمون ان کی تصنیف ’’تاریخ مخزن پاکستان‘‘ سے اقتباس ہے۔