ایس ایم ظفر کی زندگی اور اصول پرستی پر ایک نظر

Published On 19 October,2023 10:30 pm

لاہور: (دنیا نیوز) ایس ایم ظفر نے ممتاز قانون دان، سیاست دان، مصنف اور دانشور کی حیثیت سے شہرت پائی، 6 دسمبر 1930ء کو برما کے دارالحکومت رنگون میں پیدا ہوئے، جہاں ان کے والد تعمیراتی کاروبار میں کام کرتے تھے، ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی، ان کے خاندان کا تعلق پنجاب کے شہر شکر گڑھ سے تھا، پورا نام تو سید محمد ظفر ہے، ایس ایم ظفر اس وقت بنے جب کالج یونین کے جنرل سیکرٹری کا الیکشن لڑا اور پھر اسی نام سے پہچانے گئے۔

برما پر جاپانی قبضے کے بعد ان کا خاندان 1944ء میں اپنے آبائی گاؤں واپس آیا، ایس ایم ظفر نے 1945ء میں شکرگڑھ سے میٹرک، گورنمنٹ کالج لاہور سے انٹرمیڈیٹ جبکہ قانون کی تعلیم پنجاب یونیورسٹی لاء کالج سے حاصل کی، انہیں پنجاب یونیورسٹی کے 124 ویں کانووکیشن میں قانون میں پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری سے نوازا گیا۔

ایس ایم ظفر نے 1950ء کی دہائی میں بطور وکیل اپنے کیریئر کا آغاز کیا، انہوں نے 1958ء میں پاکستان میں مارشل لاء کے نفاذ اور پھر 1962ء کے آئین پاکستان میں زبردستی ترامیم کرنے میں اہم کردار ادا کیا، جس میں پہلے بنیادی انسانی حقوق کے لئے خاطر خواہ تحفظات نہیں تھے۔

1965ء سے 1969ء تک پاکستان کے وزیر قانون و انصاف کے طور پر خدمات انجام دینے کے بعد 1968ء میں حکومت سے ریٹائر ہوئے اور اپنی قانون کی پریکٹس شروع کی، ان کے چند ہم عصروں نے 1976ء میں ہیومن رائٹس سوسائٹی آف پاکستان کی بنیاد رکھی۔

ایس ایم ظفر پاکستان کے سابق صدر جنرل محمد ایوب خان کی کابینہ میں وزیر قانون و پارلیمانی امور رہے، علاوہ ازیں 2003ء سے 2012ء تک سینیٹ کے رکن جبکہ 2004ء سے 2012ء تک ہمدرد یونیورسٹی کے چانسلر کی حیثیت سے انہوں نے خدمات بھی انجام دیں، آپ کی چھ کتابیں شائع ہوئیں جن پر انہیں بے انتہائی پذیرائی حاصل ہوئی، ملکی تاریخ کے کئی اہم مقدمات میں کامیابی کا سہرا آپ کے سر ہے۔

ٹیک کلب کنوینر جمیل گشکوری نے ایس ایم ظفر کے حوالے سے بتایا کہ ان کی اصول پسندی کا ایک واقعہ مجھے یاد آرہا ہے کہ ایک دن ان کے صادق پلازہ میں دفتر میں پہنچا تو ایک بھاری بھر کم پارٹی ان کے دفتر میں بیٹھی ہوئی تھی اور وہ اصرار کررہی تھی وہ سپریم کورٹ میں اپیل کیلئے ان کا کیس لڑیں، ایس ایم ظفر صاحب ان کو سمجھا رہے تھے کہ اس میں کوئی ایسا نکتہ نہیں ہے، میں صرف آپ کو گائیڈ کر سکتا ہوں مگر یہ کیس میں نہیں لڑ سکتا۔

اس پر اس پارٹی نے ایس ایم ظفر سے کہا کہ آپ جتنی منہ مانگی فیس مانگیں گے ہم وہ بھی دیں گے اور اگر آپ کیس جیت گئے تو پراپرٹی کا 25 فیصد بھی آپ کو دیں گے، مگر اس کے باوجود ایس ایم ظفر صاحب نہیں مانے اور انہوں نے واضح کہا کہ میں پیسوں کیلئے کیس نہیں لڑتا، میں صرف قانون کیلئے اور اصولوں کیلئے کیس لڑتا ہوں اور یہ بات سننے کے بعد وہ پارٹی اٹھ کر چلی گئی۔

میں نے ایس ایم ظفر صاحب سے پوچھا کہ پارٹی نے اتنی بڑی آفر آپ کو دی تھی مگر آپ نے کیس لڑنے سے کیوں انکار کیا اور وہ یہ بھی کہہ رہے تھے کہ اگر ہم کیس ہار بھی گئے تو ہمیں کوئی فرق نہیں پڑے گا آپ صرف ہمارے لئے اپیل تیار کریں اور سپریم کورٹ میں پیش ہوجائیں، انہوں نے کہا کہ یہ کام میں قانون کیلئے کرتا ہوں، پیسوں کیلئے نہیں کرتا، ان کی بات سن کر میں ان کی اصول پرستی کا قائل ہوگیا۔