اسلام آباد: (دنیا نیوز) سپریم کورٹ آف پاکستان نے پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کا فیصلہ بحال کر دیا۔
عدالت عظمیٰ کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے انٹرا پارٹی انتخابات اور بلے کے انتخابی نشان کیس کے فیصلے کے تحت پی ٹی آئی سے بلے کا نشان واپس لے لیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ میں پشاور ہائی کورٹ فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی اپیل پر دوسرے روز سماعت ہوئی جو شام 7 بجے کے بعد بھی جاری رہی، جس کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا گیا جو اب سنا دیا گیا ہے۔
انتخابی نشان کیس کا محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ تاخیر پر معذرت خواہ ہوں، فیصلے کی کاپی اپ لوڈ کریں گے، جس کے بعد چیف جسٹس نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی انٹراپارٹی انتخابات کرانے کا نوٹس 2021ء میں کیا، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو جون 2022ء تک انتخابات کرانے کا وقت دیا۔
فیصلے کے مطابق الیکشن کمیشن نے 20 دن میں انتخابات کرانے کا کہا، بصورت دیگر انتخابی نشان لینے کا بتایا گیا، پی ٹی آئی کی درخواست پر لاہور ہائیکورٹ 5 رکنی بینچ بنا جو زیر التوا ہے، پی ٹی آئی نے دوبارہ انتخابات کرا کر بھی لاہور ہائیکورٹ میں اپنی درخواست واپس نہیں لی۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق پشاور ہائیکورٹ نے 22 دسمبر تک پی ٹی آئی کو انٹرا پارٹی الیکشن پر فیصلہ کرنے کو کہا، پی ٹی آئی نے دوبارہ انتخابات کرا کر بھی لاہور ہائیکورٹ میں اپنی درخواست واپس نہیں لی۔
فیصلے کے مطابق پشاور ہائیکورٹ نے 22 دسمبر تک پی ٹی آئی کو انٹرا پارٹی الیکشن پر فیصلہ کرنے کو کہا، الیکشن کمیشن نے 22 دسمبر کو کہا پی ٹی آئی نے انٹراپارٹی انتخابات درست نہیں کرائے، الیکشن کمیشن نے انٹراپارٹی انتخابات درست نہ کرانے پر انتخابی نشان پی ٹی آئی سے لے لیا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق لاہور ہائیکورٹ کے سنگل جج نے 3 جنوری کو فیصلہ دیا، ایک معاملہ ایک ہائیکورٹ میں زیر التوا ہو تو دوسرے ہائیکورٹ میں نہیں چیلنج ہو سکتا۔
فیصلے کے مطابق پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن پر امتیازی سلوک کا الزام لگایا، عدالتی استفسار پر بتایا گیا الیکشن کمیشن نے 13 جماعتوں کے انتخابی نشان لیے، الیکشن کمیشن نے کہا کہ پی ٹی آئی نے انتخابات نہیں کرائے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق پی ٹی آئی کے 14 اراکین کی درخواست یہ کہہ کر ہائیکورٹ نے مسترد کر دی کہ وہ ممبران ہی نہیں، فیصلے کے مطابق پاکستان میں آمریت نہیں چل سکتی، الیکشن کمیشن کی اپیل منظور کرتے ہوئے پشاورہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔
انتخابی نشان کیس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بینچ میں شامل تھیں۔
پی ٹی آئی کے وکیل سینیٹر علی ظفر، حامد خان اور الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان سپریم کورٹ میں موجود تھے۔
سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ پشاور ہائی کورٹ کا تفصیلی فیصلہ آ گیا ہے جس پر پی ٹی آئی وکیل حامد خان نے کہا کہ فیصلہ پڑھا ہے، پشاور ہائی کورٹ نے بہترین فیصلہ لکھا ہے۔
کیس کی سماعت کا احوال
بیرسٹر علی ظفر نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ آج پارٹی ٹکٹ جمع کرانے کا آخری دن ہے، وقت کی قلت ہے اس لئے جلدی دلائل مکمل کرنے کی کوشش کروں گا۔
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ ہمارے پاس بھی وقت کم ہے کیونکہ فیصلہ بھی لکھنا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ 2 سوالات ہیں کہ کیا عدالتی دائرہ اختیار تھا یا نہیں؟ کیا الیکشن کمیشن کے پاس انٹرا پارٹی الیکشن کی چھان بین کا اختیار ہے یا نہیں؟
انتخابی نشان انٹرا پارٹی انتخابات کی وجہ سے نہیں روکا جا سکتا: بیرسٹر علی ظفر
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ نہ تو آئین اور نہ ہی الیکشن ایکٹ الیکشن کمیشن کو انٹرا پارٹی الیکشن کے جائزہ کی اجازت دیتے ہیں، انتخابی نشان انٹرا پارٹی انتخابات کی وجہ سے نہیں روکا جا سکتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ آرٹیکل 17 دو طرح سیاسی جماعتیں بنانے کا اختیار دیتا ہے، سپریم کورٹ بھی آرٹیکل 17 دو کی تفصیلی تشریح کر چکی ہے، انتخابات ایک انتخابی نشان کے ساتھ لڑنا سیاسی جماعت کے حقوق میں شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعت کو انٹراپارٹی انتخابات کی بنیاد پر انتخابی نشان سے محروم کرنا آرٹیکل 17 دو کی خلاف ورزی ہے، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے ساتھ امتیازی سلوک برتا ہے، الیکشن کمیشن نے بلے کا نشان چھین کر بظاہر بدنیتی کی ہے۔
الیکشن کمیشن عدالت نہیں ہے: وکیل پی ٹی آئی
بیرسٹر علی ظفر نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن عدالت نہیں ہے، الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے ساتھ جانبدارانہ اور بدنیتی پر مبنی سلوک کیا، بنیادی سوال سیاسی جماعت اور اس کے ارکان ہے اس لئے شفاف ٹرائل کے بغیر کوئی فیصلہ ممکن نہیں۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن عدالت نہیں جو شفاف ٹرائل کا حق دے سکے، الیکشن کمیشن میں کوئی ٹرائل ہوا ہی نہیں، پی ٹی آئی کے کسی رکن نے انٹرپارٹی انتخابات چیلنج نہیں کئے، انٹراپارٹی انتخابات صرف سول کورٹ میں ہی چیلنج ہو سکتے تھے، الیکشن کمیشن کے پاس سوموٹو اختیار نہیں کہ خود فیصلہ بھی کرے اور اپیلیں بھی۔
انہوں نے عدالت کو آگاہ کیا کہ انٹرا پارٹی انتخابات جماعت کے آئین کے مطابق کرائے گئے ہیں، پی ٹی آئی نے پہلے 2022 میں انٹرا پارٹی انتخابات کرائے جو الیکشن کمیشن نے تسلیم نہیں کئے۔
بیرسٹر علی ظفر نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن نے 20 دن میں انتخابات کرانے کا حکم دیا، خدشہ تھا پی ٹی آئی کو انتخابات سے باہر نہ کر دیا جائے اس لئے عملدرآمد کیا، سپریم کورٹ اسی دوران 8 فروری کو انتخابات کا حکم دے چکی تھی، 2 دسمبر کو پی ٹی آئی نے دوبارہ انٹرا پارٹی انتخابات کرائے۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن میں پارٹی انتخابات کے خلاف 14 درخواستیں دائر ہوئیں، ہمارا بنیادی موقف تھا کہ درخواست گزار پارٹی ممبر نہیں ہیں، الیکشن کمیشن نے اپنے 32 سوالات بھیجے جن کا تحریری جواب دیا، جواب ملنے کے بعد الیکشن کمیشن نے پارٹی انتخابات کالعدم قرار دے کر انتخابی نشان واپس لے لیا۔
الیکشن کمیشن نے فیصلے میں کسی بے ضابطگی کا ذکر نہیں کیا: بیرسٹر علی ظفر
بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ الیکشن کمشین کے حکم نامہ میں تسلیم شدہ ہے کہ انٹرا پارٹی انتخابات ہوئے تھے، الیکشن کمیشن نے فیصلے میں کسی بے ضابطگی کا ذکر نہیں کیا، الیکشن کمیشن نے فیصلے کی جو وجوہات دی ہیں وہ عجیب ہیں، الیکشن کمیشن نے انتخابات کو درست کہا چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی غلط قرار دی۔
انہوں نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن نے کہا تعیناتی درست نہیں اس لئے انتخابات تسلیم کریں گے نہ ہی نشان دیں گے، کل مخدوم علی خان نے تکنیکی نوعیت کے اعتراضات کئے تھے، مخدوم علی خان کا نکتہ پارٹی کے اندر جمہوریت کا تھا۔
جمہوریت ملک کیساتھ سیاسی جماعتوں کے اندر بھی ہونی چاہیے: چیف جسٹس
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ جمہوریت ملک کے ساتھ سیاسی جماعتوں کے اندر بھی ہونی چاہیے، بنیادی سوال جمہوریت کا ہے پارٹی آئین پر مکمل عملدرآمد کا نہیں، کم از کم اتنا تو نظر آئے کہ انتخابات ہوئے ہیں، اکبر ایس بابر بانی رکن تھے، وہ پسند نہیں تو الگ بات ہے لیکن ان کی رکنیت تو تھی۔
انہوں نے مزید ریمارکس دیئے کہ صرف یہ کہنا کافی نہیں کہ درخواست گزار پارٹی رکن نہیں تھے، اکبر بابر نے اگر استعفیٰ دیا یا دوسری پارٹی میں گئے تو وہ بھی دکھا دیں، الیکشن کمیشن کی بدنیتی ثابت کرنا ہوگی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو اس وقت نوٹس کیا جب وہ حکومت میں تھی، الیکشن ایکٹ کی آئینی حیثیت پر تبصرہ نہیں کریں گے کیونکہ کسی نے چیلنج نہیں کیا، اِس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کو ہم بھی چیلنج نہیں کر رہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا پی ٹی آئی نے اپنا جاری کردہ شیڈول فالو کیا تھا؟ کیا انتخابات شفاف تھے؟ کچھ واضح تھا کہ کون الیکشن لڑ سکتا ہے کون نہیں؟
انہوں نے ریمارکس دیئے کہ آپ لیول پلیئنگ فیلڈ مانگتے ہیں، اپنے ارکان کو بھی تو لیول پلیئنگ فیلڈ دینی ہوگی، الیکشن کمیشن نے ازخود تو کارروائی نہیں کی، شکایات ملنے پر کارروائی کی۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے ایسی کسی بے ضابطگی کی نشاندہی نہیں کی، تمام سوالات کے جواب دستاویزات کے ساتھ دوں گا۔
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ یہ انتخابی نشان کیا ہوتا ہے ہمیں معلوم ہے، اگر ایوب خان کے دور کے بعد کی بات کریں تو پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی ایک تاریخ ہے، پیپلزپارٹی سے ماضی میں تلوار کا نشان واپس لیا گیا، پھر پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین بنی۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ ایک اور سیاسی جماعت مسلم لیگ نے بھی ایسا ہی وقت دیکھا لیکن اس وقت حکومت میں کون تھا یہ بھی دیکھنا ہے، آج کی اور تب کی صورتحال میں بہت فرق ہے، تب سپریم کورٹ کے ججز نے پی سی او کے تحت حلف اٹھایا تھا، آج تحریک انصاف کے مخالفین حکومت میں نہیں ہیں۔
انہوں نے بیرسٹر علی ظفر سے استفسار کیا کہ بانی پی ٹی آئی جیل میں ٹرائل کا سامنا کر رہے ہیں، کل وہ باہر آ کر کہہ دیں کہ کسے منتخب کر دیا تو کیا ہوگا؟
پی ٹی آئی اپنی حکومت والی اسٹیبلشمنٹ کا ذکر نہیں کرتی: چیف جسٹس
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ اگر پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ اور الیکشن کمیشن پر الزام لگاتی ہے تو ان کی حکومت میں کون تھا؟ کیا پی ٹی آئی نے خود چیف الیکشن کمشنر کا تقرر نہیں کیا؟ پی ٹی آئی اپنی حکومت والی اسٹیبلشمنٹ کا ذکر نہیں کرتی، اس وقت سب ٹھیک تھا، اب پی ٹی آئی کہتی ہے سب ادارے ان کے خلاف ہوگئے؟ ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار بالکل واضح اور سخت ترین رہا، پی ٹی آئی اگر صرف الزام تراشی اور سیاسی ڈرامہ کرنا چاہتی ہے تو ادارے کمزور ہوں گے۔
انہوں نے مزید ریمارکس دیئے کہ آج کل ہر کوئی اسٹیبلشمنٹ کا لفظ استعمال کرتا ہے، اصل نام فوج ہے، ہمیں کھل کر اور مکمل بات کرنی چاہیے، میں آئینی اداروں کی عزت کرتا ہوں۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کے مطابق ہر سیاسی جماعت نے پارٹی انتخابات کے 7 دن میں سرٹیفکیٹ دینا ہے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ سرٹیفکیٹ پارٹی آئین کے مطابق انتخابات سے مشروط ہے، بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو انٹراپارٹی انتخابات کی سکروٹنی کا اختیار نہیں ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ اصل مسئلہ ہی دائرہ اختیار کا بنا ہوا ہے۔
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ آپ یا تسلیم کر لیں جمہوریت چاہیے یا نہیں؟ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ گھر میں جمہوریت چاہیے باہر نہیں چاہیے، آپ کو سیاست چاہیے جمہوریت نہیں چاہیے، سیاست تو ہے ہی جمہوریت، الیکشن کمیشن کا ایک ہی دکھڑا ہے کہ پارٹی انتخابات کرا لو۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پارٹی الیکشن کرائے لیکن وہ الیکشن کمیشن نے مانے نہیں۔
آپ کو سیاست چاہیے جمہوریت نہیں چاہیے: چیف فائز عیسیٰ
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ 14 درخواست گزاروں کو الیکشن کیوں نہیں لڑنے دیا؟ بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ کسی کو اعتراض ہے تو سول کورٹ چلا جائے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم جمہوریت کیساتھ کھڑے ہیں چاہے وہ گھر کے اندر ہو یا باہر ہو۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ کوئی پٹواری انٹراپارٹی انتخابات کا فیصلہ نہیں کر سکتا کیونکہ اسے اختیار نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کو سیاست چاہیے جمہوریت نہیں چاہیے، سیاست تو ہے ہی جمہوریت، آپ کہتے ہیں کہ انٹرا پارٹی الیکشن نہ کروانے پر الیکشن کمیشن 2 لاکھ جرمانہ کر سکتا ہے لیکن ساتھ ہی آپ کہتے ہیں باقی اختیار الیکشن کمیشن کے پاس نہیں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کوئی پارٹی الیکشن کرائے بغیر سرٹیفکیٹ دے دے تو کیا الیکشن کمیشن کچھ نہیں کر سکتا؟
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن ایکٹ میں پارٹی انتخابات کی شفافیت کا جائزہ لینے کا اختیار نہیں ہے، انتخابات نہ کرانے پر الیکشن کمیشن 2 لاکھ روپے تک جرمانہ کر سکتا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ پی ٹی آئی انتخابات کروا کر جرمانے کی سٹیج سے تو آگے نکل چکی ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے استفسار کیا کہ پی ٹی آئی کے سربراہ کون ہیں؟ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ بیرسٹر گوہر پارٹی کے چیئرمین ہیں۔
بیرسٹر گوہر کا اپنا الیکشن ہی سوالیہ نشان بن گیا ہے: چیف جسٹس
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ بیرسٹر گوہر کا اپنا الیکشن ہی سوالیہ نشان بن گیا ہے، بانی پی ٹی آئی سرٹیفکیٹ دیتے تو اور بات تھی جس پر بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ سرٹیفکیٹ پارٹی سربراہ نے دینا ہوتا ہے، سابق سربراہ نے نہیں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ پارٹی انتخابات کے وقت چیئرمین کون تھا؟ بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ پارٹی انتخابات ہوئے تو چیئرمین اس وقت بانی پی ٹی آئی تھے۔
چیف جسٹس نےاستفسار کیا کہ الیکشن کمیشن کا اختیار نہیں تو پھر کس کا ہے؟ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اکبر ایس بابرممبر نہیں ہیں انہیں نکال دیا۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ آپ ہمیں دکھائیں ریکارڈ سے وہ ممبر نہیں، بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ میں آپ کو وہ دستاویز دکھا دیتا ہوں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ سرٹیفکیٹ پارٹی آئین کے مطابق انتخابات سے مشروط ہے۔
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ پی ٹی آئی آئین کہتا ہے چیئرمین کا الیکشن 2 سال باقی 3 سال بعد ہوں گے، یہاں تک تو پارٹی آئین کی خلاف ورزی ثابت ہوگئی۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ میرا بیان یہی ہے اکبر ایس بابر ممبر نہیں ہیں، مجھے ہدایات یہی ملی ہیں وہ ممبر نہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے استفسار کیا کہ آپ کو ہدایات کون دے رہا ہے؟ بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ مجھے پارٹی سربراہ ہدایات دے رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جنہوں نے خود 2 سال پہلے پارٹی جوائن کی وہ ہدایت دے رہے ہیں؟ برطانیہ میں جتنے وزرائے اعظم آئے وہ ایک ہی جماعت کے لوگ تھے اور اپنی ہی جماعت سے ان کو مخالفت ہوئی۔
جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے انٹرا پارٹی انتخابات کیلئے کاغذات نامزدگی اپنی ویب سائٹ پر شائع کئے؟ کس طرح مخصوص لوگوں کو علم ہوا کہ یہ کاغذات نامزدگی ہیں اور کب جمع کرانا ہیں؟
اس دوران کمرہ عدالت میں چیف جسٹس نے ہدایت دی کہ جس کے پاس لیپ ٹاپ ہے وہ تحریک انصاف کی ویب سائٹ کھولیں اور پاکستان تحریک انصاف کی ویب سائٹ پر کاغذاتِ نامزدگی چیک کریں۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ جب الیکشن ہوگیا تو کاغذات نامزدگی ہٹا دیئے گئے۔
کونسی سیاسی جماعت کیش میں فیس وصول کرتی ہے؟ چیف جسٹس
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ ہماری سپریم کورٹ کی ویب سائٹ دیکھیں ہمارے تو انتخابات نہیں ہوتے، ہماری ویب سائٹ پر اگر ہم نوکری کا اشتہار دیتے ہیں تو موجود ہوگا، کچھ تو کاغذ کا ٹکڑا دکھا دیں کہ امیدواروں سے فیس کی یا کاغذات نامزدگی کا۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ فیس کیش میں وصول کی گئی، اِس پر چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کون سی سیاسی جماعت کیش میں فیس وصول کرتی ہے؟ آپ کا الیکشن شیڈول سر آنکھوں پر اس کی تعمیل دکھا دیں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ آپ کی پارٹی کا تو نعرہ ہی یہ ہے کہ لوگوں کو بااختیار بنانا ہے لیکن یہاں نظر نہیں آ رہا۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ہم نے جو بھی غلطیاں کی اس کیلئے 20 دن کا ٹائم دیا گیا۔
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ ساڑھے 3 سال پہلے کی بات ہے الیکشن کمیشن نے کہا کہ آپ الیکشن کروائیں، آپ کی طرف سے جواب دیا گیا کہ کورونا ہے، ایک سال کا ٹائم دیا گیا، الیکشن کمیشن نے تو بہادری دکھائی کہ (پی ٹی آئی) کو حکومت میں نوٹس دیا۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ صرف ہمیں نہیں الیکشن کمیشن نے سب کو نوٹس بھیجا تھا۔
پی ٹی آئی ارکان کو ہی لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں ملی،جسٹس محمد علی مظہر
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ جو شیڈول پی ٹی آئی نے دیا ہے وہ عملی طور پر ممکن نہیں لگ رہا، اگر تو قانون کے بجائے مرضی سے فیصلے کرنے ہیں تو میں تسلیم نہیں کر سکتا، سب سیاسی جماعتوں کیساتھ یکساں سلوک ہونا چاہیے، الیکشن کمیشن نے بتایا کہ کسی اور پارٹی کے انتخابات پر اعتراض نہیں آیا۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پارٹی الیکشن شیڈول پر اعتراض کا جواب دوں گا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جج صاحب نے اعتراض نہیں کیا سوال کیا ہے جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پارٹی انتخابات کا شیڈول پارٹی کا اندرونی معاملہ ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ پی ٹی آئی ارکان کو ہی لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں ملی۔
بنیادی بات سرٹیفکیٹ نہیں، الیکشن ہونا ہیں:چیف جسٹس
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ قانون کے مطابق انٹراپارٹی انتخابات کا سرٹیفکیٹ دینا لازمی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بنیادی بات سرٹیفکیٹ نہیں الیکشن ہونا ہیں، سرٹیفکیٹ نہ ہونا مسئلہ نہیں الیکشن نہ ہونا مسئلہ ہے، پی ٹی آئی پارٹی انتخابات سے گھبرا کیوں رہی ہے؟ ہمیں کوئی دستاویزات دکھا دیں کہ انتخابات ہوئے ہیں، سرٹیفکیٹ تو الیکشن کے بغیر بھی آ سکتا ہے۔
انہوں نے مزید ریمارکس دیئے کہ اگر پی ٹی آئی کو زیادہ وقت چاہیے تو پہلے کہا تھا کہ فیصلہ معطل کرنا پڑے گا، عدالت کو جو تشویش ہے پہلے اسے دور کریں، پھر گلہ نہ کیجئے گا کہ فیصلہ کیوں معطل کیا۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی نے کس کو چیئرمین نامزد کیا وہ اگلے ہی دن اعلان کر دیا گیا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بانی پی ٹی آئی کی نامزدگی کا لیٹر کہاں ہے؟ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کی نامزدگی کا کوئی خط نہیں ہے، میڈیا پر اعلان کیا تھا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ایسے کیسے تسلیم کر لیں کہ بانی پی ٹی آئی نے کس کو نامزد کیا تھا، آپ پرانے اور حامد خان بانی رکن ہیں انہیں کیوں نہیں نامزد کیا گیا؟ کل بانی پی ٹی آئی کہہ دیں میں نے نامزد نہیں کیا تھا پھر کیا ہوگا؟
بیرسٹرعلی ظفر نے کہا کہ 29 نومبر کو فیڈرل الیکشن کمیشن کو نامزد کیا گیا۔
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ لگتا ہے تحریک انصاف دستاویزات کے معاملے میں کافی کمزور ہے، ہم جو دستاویزات مانگتے ہیں آپ کے پاس ہوتا ہی نہیں ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ پارٹی انتخابات میں اور کوئی پینل آیا؟ بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ ایک ہی پینل تھا وہ جیت گیا، پینل میں 15 لوگ تھے جو منتخب ہوئے۔
چیف جسٹس نے بیرسٹر علی ظفر سے استفسار کیا کہ نیاز اللہ نیازی کیا پی ٹی آئی کے ممبر ہیں؟
بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ جی نیاز اللہ نیازی پی ٹی آئی کے 2009 سے ممبر ہیں، نیاز اللہ نیازی کو چیف الیکشن کمشنر بنایا گیا۔
نیاز اللہ نیازی کی چیف جسٹس سے تلخ کلامی
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ دیکھیں ناں سب نئے نئے چہرے آ رہے ہیں، پرانے لوگ کہاں ہیں؟ عمر ایوب کے پینل نے کاغذات یکم دسمبر کو جمع کرائے۔
چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیئے کہ نئے لوگوں کی شمولیت شکوک پیدا کرتی ہے، بااثر افراد جماعت پر قبضہ کر لیتے ہیں۔
اس پر نیاز اللہ نیازی نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو مخاطب کر کے کہا کہ آپ میری تذلیل کر رہے ہیں، یہ باتیں نہ کریں نئے چہرے کیسے آئے، آپ کچھ بھی کہہ سکتے ہیں، میرا بیٹا آپ کے پاس لا کلرک کا انٹرویو دینے آیا، آپ نے اُس سے بھی پی ٹی آئی سے متعلق سوالات پوچھے۔
نیاز اللہ نیازی نے مزید کہا کہ میں 3 سال تک آپ کے سامنے پیش ہوتا رہا، مجھے علم ہے میرے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔
اِس پر چیف جسٹس نے بیرسٹر علی ظفر سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ کیا ہم انہیں نوٹس جاری کریں؟ اگر ایسے کرنا ہے تو ہم اٹھ کر چلے جاتے ہیں، ہم تو سوال سمجھنے کیلئے پوچھتے ہیں، اگر ایسا رویہ رکھنا ہے تو ہم کیس ہی نہیں سنتے، مجھے معلوم ہی نہیں کہ اِن کا کوئی بیٹا بھی ہے، اگر آپ الزام لگا کر اداروں کو تباہ کرنا چاہتے ہیں تو کریں۔
بیرسٹر علی ظفر نے نیاز اللہ نیازی کے رویے پر چیف جسٹس فائز عیسیٰ سے اظہارِ معذرت کیا، دریں اثناء عدالت نے کیس کی سماعت میں آدھے گھنٹے کا وقفہ کر دیا۔
اکبر ایس بابر الیکشن لڑنا چاہتے تو ہمیں اعتراض نہ ہوتا، وکیل پی ٹی آئی
وقفے کے بعد دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کو دلائل کیلئے کتنا وقت درکار ہوگا؟ جس پر بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ کوشش کروں گا ایک گھنٹے میں دلائل مکمل کر لوں۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ کاغذات نامزدگی جمع ہونا پہلا اور انتخابات کا مقام دوسرا مرحلہ تھا، پی ٹی آئی چاہتی تھی کہ پولنگ اسلام آباد میں ہو، شادی ہال سمیت کوئی بھی اپنی جگہ دینے کیلئے تیار نہیں تھا۔
جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ جہاں الیکشن ہوا کیا وہاں آپ کا دفتر ہے؟
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ جس گراؤنڈ میں الیکشن ہوا وہ ہمارے دفتر کے ساتھ ہے، الیکشن کمیشن نے آئی جی پولیس کو پشاور میں سکیورٹی فراہمی کیلئے خط لکھا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن نے پولنگ کا مقام اور دیگر تفصیلات مانگی تھیں کیا وہ بتائی گئیں؟
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے اس خط کا جواب نہیں دیا لیکن پولیس کو آگاہ کر دیا تھا، میڈیا کے ذریعے پولنگ کے مقام سے بھی آگاہی فراہمی کر دی تھی، جو پینل سامنے آئے ان کی تفصیلات بھی ریکارڈ کا حصہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اکبر ایس بابر جب آئے تو وقت ختم ہو چکا تھا، اکبر ایس بابر نے آج تک اپنا پینل ہی نہیں دیا کہ وہ کہاں سے الیکشن لڑنا چاہتے تھے، اکبر ایس بابر الیکشن لڑنا چاہتے تو ہمیں اعتراض نہ ہوتا۔
پارٹی آئین میں کہیں بلامقابلہ انتخاب کا نہیں لکھا: چیف جسٹس
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پارٹی آئین میں کہاں لکھا ہے الیکشن اکیلا شخص نہیں لڑ سکتا؟ بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ پارٹی آئین میں پینل انتخابات کا ذکر ہے۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ پارٹی آئین کے مطابق چیئرمین کا انتخاب ہو ہی ووٹ کے ذریعے ہو سکتا ہے، بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ کوئی مدمقابل نہ ہو تو انتخاب بلامقابلہ تصور ہوگا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پارٹی آئین میں کہیں بلامقابلہ انتخاب کا نہیں لکھا، بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ووٹنگ ہوتی ہی تب ہے جب ایک سے زیادہ امیدوار ہوں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر چیئرمین کے واحد امیدوار کو ہی لوگ پسند نہ کرتے ہوں تو کیا ہوگا، اس طرح تو آپ آمریت کی جانب جا رہے ہیں، اگر ایک ووٹ بھی نہ ڈلے تو سینیٹر بھی منتخب نہیں ہوسکتا؟ علی ظفر نے جواب دیا کہ میں بلامقابلہ سینیٹر منتخب ہوا تھا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ چیئرمین، سیکرٹری جنرل سمیت سب لوگ ایسے ہی آگئے یہ تو سلیکشن ہوگئی، پی ٹی آئی نے الیکشن کیوں نہیں کرایا؟ آخر مسئلہ کیا تھا؟
اس دوران بیرسٹر علی ظفر نے مسلم لیگ (ن) کے بلامقابلہ انتخابات کا نوٹیفکیشن پیش کر دیا، انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) میں بھی سب بلامقابلہ انتخابات ہوئے تھے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بلامقابلہ انتخابات پارٹیوں میں ہوتے رہتے ہیں، اس پر تبصرہ نہیں کریں گے۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اے این پی کے ضلعی صدور بھی بلامقابلہ منتخب ہوئے تھے، اے این پی کو آج جرمانہ کر کے پارٹی انتخابات جنرل الیکشن کے بعد کرانے کا کہا گیا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ معاملہ فنڈنگ کا بھی 2014 سے پڑا ہے جو آپ چلنے نہیں دیتے، ملک چلانے والے کون ہوتے ہیں عوام کو پتا ہونا چاہیے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کل بیرسٹر گوہر وزیراعظم بن گئے تو کیا انہیں پارٹی کے لوگ جانتے ہوں گے؟ بغیر انتخاب بڑے لوگ آ جائیں تو بڑے فیصلے بھی کریں گے، ہو سکتا ہے آئی ایم ایف سے معاہدہ بھی کرنا پڑے، لوگ اپنے منتخب افراد کو جانتے تو ہوں۔
پرانے لوگوں کو ساتھ رکھیں تو انہیں تجربہ ہوتا ہے: جسٹس فائز عیسیٰ
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پی ٹی آئی انتخابات میں کسی نے ووٹ نہیں ڈالا، بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ مدمقابل کوئی نہیں تھا اس لئے ووٹنگ نہیں ہوئی تھی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کورونا کے دوران بھی انتخابات ہوسکتے تھے، اگر کوئی پینل نہ سامنے آتا تو ایسے ہی بلامقابلہ الیکشن ہوجاتے، جواب میں بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ماضی کو واپس کیا جا سکتا تو ضرور کر دیتے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن نے 2021 میں انتخابی نشان واپس لینے کا خط لکھا تھا، پرانے لوگوں کو ساتھ رکھیں تو انہیں تجربہ ہوتا ہے، اکبر ایس بابر کی دستاویزات کے مطابق پی ٹی آئی کے 12 بانی ارکان تھے، پی ٹی آئی نے شاید بعد میں آئین بدل لیا۔
انہوں نے مزید ریمارکس دیئے کہ یہ تو ثابت ہوگیا کہ اکبر ایس بابر پی ٹی آئی کے بانی ممبر تھے، اکبر بابر کو پارٹی سے نکالنے کی دستاویزات دکھا دیں، پی ٹی آئی پر کوئی باہر سے تو نہیں حملہ کر رہا نا، چیئرمین بننے کا حق حامد خان کا زیادہ ہے یا بیرسٹر گوہر کا؟
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بلامقابلہ انتخاب کیسے ہوا؟ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) میں مریم نواز سمیت سب بلامقابلہ منتخب ہوئے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بڑے عہدوں پر لوگ بلامقابلہ ہو جاتے ہیں، بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اے این پی کے ضلعی صدور بھی بلامقابلہ بنے۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ آپ کا معاملہ پرانا ہے، مقابلے میں کوئی نہیں تھا پھر بھی ووٹنگ کیوں نہ ہوئی؟ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے پاس پارٹی انتخابات کے جائزے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن کو فنڈنگ کا جائزہ لینے کا بھی اختیار نہیں؟ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ فنڈنگ کا معاملہ مختلف ہے اس کی سکروٹنی الیکشن کمیشن کر سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سکروٹنی کا اختیار الیکشن کمیشن کو آئین نہیں قانون میں دیا گیا ہے، اس نکتے پر آپ کیوں نہیں کہتے کہ سول کورٹ کا اختیار ہے۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ فنڈنگ کے ذرائع کے حوالے سے الیکشن ایکٹ بالکل واضح ہے۔
بیرسٹر گوہر کمرہ عدالت سے چلے گئے
دوران سماعت بیرسٹر گوہر نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ابھی خبر آئی ہے میرے گھر میں 4 ڈالے (گاڑیاں) گئے، میرے بیٹے اور بھتیجے کو مارا گیا ہے اور سارے کاغذات لے کر چلے گئے ہیں۔
دریں اثناء چیف جسٹس فائز عیسیٰ کی بات سنے بغیر بیرسٹر گوہر کمرہ عدالت سے روانہ ہو گئے۔
چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ایسا کچھ نہیں ہونا چاہیے تھا، اگر ایسا ہوا ہے تو اس معاملے کو ذرا دیکھیں۔
یہ نہیں ہو سکتا کہ الیکشن نہ ہو اور انتخابی نشان بھی مل جائے: چیف جسٹس
سماعت کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن بار بار کہہ رہا تھا الیکشن کرا لو، یہ نہیں ہو سکتا کہ الیکشن نہ ہو اور انتخابی نشان بھی مل جائے، بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کروایا لیکن وہ مانتے ہی نہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اس وقت معاملہ حالیہ انتخابات کا ہے پرانا نہیں، بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ انتخابی نشان پی ٹی آئی کا بنیادی حق ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن ہوجائے تو سرٹیفکیٹ اور انتخابی نشان بعد کی باتیں ہیں۔
دریں اثناء بیرسٹر گوہر کمرہ عدالت میں واپس آگئے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ گوہر صاحب کیا پوزیشن ہے؟ بیرسٹر گوہر نے جواب دیا کہ سر حالات بہت سنگین ہیں، چار ڈالوں میں لوگ میرے گھر آئے، کسی پر اعتماد نہیں ہے، عدالت کو بتانا چاہتا ہوں کہ کیا ہوا۔
چیف جسٹس نے بیرسٹر گوہر کو بات کرنے سے روکتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ پہلے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو بتائیں، اگر بات نہ سنی جائے تو عدالت کو آگاہ کریں، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ سیکرٹری داخلہ اور آئی جی سے بات ہوئی ہے، سیکرٹری داخلہ اور آئی جی معلوم کر رہے ہیں کہ کیا ہوا ہے۔
چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو ہدایت دی کہ ابھی معاملے کو فکس کریں۔
بیرسٹر گوہر نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اب تو حد سے بھی تجاوز ہوگیا ہے، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پلیز یہاں بات نہ کریں، ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو کہہ دیا ہے وہ معاملہ دیکھ رہے ہیں، ہم ایس ایچ او تو نہیں ہیں۔
بعد ازاں آئی جی اسلام آباد سپریم کورٹ پہنچ گئے۔
لاہور میں معاملہ چل رہا تھا تو پشاور کیوں گئے؟ چیف جسٹس
سماعت جاری کرتے ہوئے بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ میں درخواست پارٹی کی جانب سے نہیں دی گئی، جسٹس محمد علی مظہر نے بتایا کہ درخواست گزار پی ٹی آئی کا ضلعی صدر ہے۔
علی ظفر کا کہنا تھا کہ ریکارڈ کے مطابق ہائی کورٹ نے لکھا کہ معاملہ پشاور ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے، دوبارہ انتخابات کا الیکشن کمیشن کا حکم چیلنج کیا لیکن اس پر عمل بھی کر دیا، لاہور ہائی کورٹ میں فل بنچ بنا ہوا تھا اس لئے وہاں سے رجوع کیا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ دوسرا الیکشن پشاور میں ہوا وہ بھی الیکشن کمیشن نے نہیں مانا۔
چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ لاہور میں معاملہ چل رہا تھا تو پشاور کیوں گئے؟ لاہور ہائی کورٹ میں ابھی تک درخواست زیرالتوا ہے۔
علی ظفر کا کہنا تھا کہ کل آپ کو غلط معلومات دی گئیں کہ میں نے التوا مانگا تھا، میں پہنچا تو بنچ پہلے ہی تحلیل ہوچکا تھا، بنچ لگتا تو درخواست غیرمؤثر ہونے پر واپس لے لیتا۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ اگر دو ہائی کورٹس بیک وقت کیس سننے کیلئے بااختیار ہوں تو کسی سے بھی رجوع کیا جا سکتا ہے، ایک ہائی کورٹ میں مقدمہ زیر التوا ہو تو دوسری کو فیصلے کا انتظار کرنا چاہیے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہونے دیں گے کہ ایک جگہ سے سٹے نہ ملے تو دوسری ہائیکورٹ چلے جاؤ، اگر خیبرپختونخوا کا صوبائی الیکشن ٹھیک نہ ہوتا تو پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کرنا بنتا تھا۔
علی ظفر نے کہا بیرسٹر گوہر الیکشن کمیشن کے حکم سے متاثرہ فریق ہیں، بیرسٹر گوہر کو پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کرنے سے کیسے روکا جا سکتا ہے؟
چیف جسٹس کی دلائل جلد مکمل کرنے کی ہدایت
چیف جسٹس نے حامد خان کو دلائل جلد مکمل کرنے کی ہدایت کر دی، جس کے بعد حامد محمود نے کہا کہ الیکشن لڑنا ہر سیاسی جماعت کا حق ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ 14 درخواست گزار بھی یہی حق مانگ رہے ہیں، حامد خان نے کہا کہ الیکشن کمیشن کیسے پارٹی کے اندرونی معاملے میں مداخلت کر سکتا ہے، الیکشن کمیشن تحریک انصاف کے انتخابی نشان کو ٹارگٹ کر رہا ہے۔
حامد خان نے کہا کہ الیکشن کمیشن پی ٹی آئی کو کیوں انتخابات سے باہر رکھنا چاہتا ہے، الیکشن کمیشن کروڑوں ووٹرز کو حق سے کیسے محروم کر سکتا ہے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ فوزیہ قصوری بھی پارٹی میں ہیں یا چلی گئیں؟ حامد خان نے کہا کہ آپ کے سامنے یہ معاملہ نہیں، آپ کے سامنے سوال ہے انتخانی نشان ملنا چاہئے یا نہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہ تو ڈرامائی الفاظ ہیں، اگر یہ چودہ لوگ الیکشن لڑتے تو ووٹرز کے حقوق کیسے متاثر ہوتے؟ جس پر حامد خان نے کہا کہ درخواست گزار پارٹی ممبر ہی نہیں ہیں تو الیکشن کیسے لڑتے، آپ نے خود مانا تھا کہ اکبر ایس بابر بانی رکن ہیں، بانی رکن اپنی پارٹی کے خلاف کیسے عدالتوں میں جا چکا ہے، اکبر ایس بابر کو شوکاز جاری کیا گیا تھا، چیف جسٹس نے کہا کہ شوکاز نوٹس دکھا دیں، حامد خان نے کہا کہ اکبر ایس بابر کا پارٹی سے نکالنے کا فیصلہ عدالت میں چیلنج نہیں ہے۔
حامد خان نے کہا کہ تین دن پہلے ایک بانی ممبر ایم کیو ایم میں شامل ہوا ہے، کیا بانی ممبر ہمیشہ ہی رکن رہ سکتا ہے؟ چیف جسٹس نے کہا ہے کہ عدالت میں کیس انتخابی نشان کا ہے اندرونی طریقہ کار کا نہیں۔
وکیل پی ٹی آئی حامد خان نے اپنے دلائل مکمل کر لیے، جس کے بعد انٹراپارٹی الیکشن چیلنج کرنے والے پی ٹی آئی ارکان روسٹرم پر آگئے
فوزیہ خان
فوزیہ خان نے کہا کہ میں پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن لڑنا چاہتی تھی، مجھے انٹرا پارٹی الیکشن لڑنے کا موقع نہیں دیا گیا۔
یوسف علی
یوسف علی نے کہا کہ سال 2013ء میں سیکرٹری جنرل تھا، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کس پارٹی سے ہیں، میں پی ٹی آئی رکن ہوں، صوبائی الیکشن بھی لڑا، بلوچستان سے لوگ بھی آئے تھے لیکن کسی کو کاغذات ہی نہیں ملے۔
راجا بلال اظہر
راجا بلال اظہر نے کہا کہ میں انٹرا پارٹی الیکشن لڑنا چاہتا تھا مگر کاغذات نامزدگی نہیں ملے، یکم دسمبر کو میں بھی پی ٹی آئی کے سینٹرل آفس گیا تھا۔
محمود احمد خان
محمود احمد خان نے کہا کہ 2006ء سے جب میں دوحہ قطر میں تھا اس وقت سے ممبر ہوں، چیف جسٹس نے کہا کہ اب کس پارٹی میں ہیں، محمود احمد نے کہا کہ میں پی ٹی آئی میں ہوں اور رہوں گا، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ الیکشن میں لڑنا چاہتے تھے؟ محمود احمد نے کہا کہ جی میں الیکشن لڑنا چاہتا تھا لیکن بتایا ہی نہیں گیا کون کون سی سیٹوں پر الیکشن ہو رہے ہیں، اگر پارٹی میں جمہوریت نہیں ہو گی تو ملک میں جمہورت نہیں ہو گی۔
نورین خان
نورین خان روسٹرم پر آگئیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کس عہدے پر رہی ہیں، نورین خان نے کہا کہ میں کافی عہدوں پر رہی ہوں، نعیم الحق کی اسسٹنٹ بھی رہی ہوں، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ابھی آپ الیکشن لڑنا چاہ رہی تھی؟ نورین خان نے کہا کہ جی میں الیکشن لڑنا چاہتی تھی میں نے آفس کال کر کے بھی پوچھا، مجھے کہا گیا کہ پارٹی الیکشن ایسے ہی ہو رہے ہیں۔
نورین خان نے کہا کہ 1999ء میں پی ٹی آئی کا حصہ بنی اور خواتین ونگ کی مقامی صدر تھی، پارٹی کے خواتین لیبر ونگ کی صدر بھی رہی، الیکشن لڑنا چاہتی تھی لیکن موقع نہیں ملا، چاہتی تھی ہائی لائٹ ہو جاؤں۔
بلال اظہر رانا
بلال اظہر رانا نے کہا کہ 1996ء سے پارٹی کا ممبر ہوں، چیف جسٹس نے پوچھا پارٹی میں کوئی عہدہ تھا آپ کے پاس؟ بلال اظہر رانا نے کہا کہ میں نے کوئی عہدہ نہیں رکھا، چیف جسٹس نے پوچھا آپ الیکشن لڑنا چاہ رہے تھے؟ بلال اظہر نے جواب دیا کہ جی میں الیکشن لڑنا چاہتا تھا۔
محمد مزمل سندھو
محمد مزمل سندھو نے کہا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ سے میرا تعلق ہے، 2016ء کو پی ٹی آئی جوائن کی، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اب کون سی پارٹی میں ہیں؟ چیف جسٹس پی ٹی آئی میں ہوں اور الیکشن لڑنا چاہتا تھا، پارٹی آفس گیا تھا لیکن آگے سے کہا گیا کہ جس کا بانی چیئرمین کہیں گے وہی پارٹی چیئرمین بنے گا۔
یاد رہے کہ الیکشن کمیشن نے پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا، درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ آئین اور قانون کے خلاف ہے۔
واضح رہے کہ 10 جنوری کو پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیا تھا۔