بجلی کی سیاست

Published On 11 July,2024 11:01 am

اسلام آباد: (عدیل وڑائچ) بجلی کے بل پاکستان کی سیاست کو بھی اپنی لپیٹ میں لینے لگے ہیں، لگتا ہے کہ آئندہ الیکشن بجلی کے بلوں کی بنیاد پر ہی لڑا جائے گا، 2013ء کے انتخابات پر بھی بجلی بحران کے اچھے خاصے اثرات تھے۔

اُس وقت بجلی کی کمی کا سامنا تھا آج بجلی تو وافر مقدار میں موجود ہے مگر اس قدر مہنگی ہے کہ نہ صرف عام آدمی پس کر رہ گیا ہے بلکہ ملکی انڈسٹری بھی تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے، 2013ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت جب ختم ہوئی تو لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کی تاریخیں ان کا مذاق بن چکی تھیں۔

اس کے بعد جب (ن) لیگ نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی تو میاں نواز شریف نے وزیر اعظم بننے سے قبل ہی بجلی بحران پر جاتی امرا میں بریفنگز لینا شروع کر دیں، اُس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کو اندازہ تھا کہ بجلی کے سنگین بحران کے ہوتے ہوئے ملک چلانا ممکن نہیں ہے، اُس وقت کی لیگی حکومت نے آر ایل این جی، سولر پاور پراجیکٹس اور کوئلے پر چلنے والے آئی پی پیز سسٹم میں شامل کیے، ملک میں بجلی کی قلت دو سے تین برسوں میں ختم ہوگئی مگر بجلی کی تقسیم اور چوری پر قابو پانے پر توجہ نہ دی گئی۔

آج پاکستان میں بجلی کی چوری سالانہ 600 ارب روپے تک پہنچ چکی ہے، ہر حکومت اس پر قابو پانے میں ناکام رہی ہے، اس چوری کا خمیازہ اب بل ادا کرنے والے ہر صارف کو بھگتنا پڑ رہا ہے، آج بجلی کی اصل پیداواری صلاحیت 37 ہزار میگاواٹ ہے مگر استعمال کی صلاحیت زیادہ سے زیادہ 24 ہزار میگاواٹ ہی ہے۔

1994ء، 2002ء اور 2015ء میں اُس وقت کی حکومتوں نے بجلی کے بحران پر قابو پانے کیلئے نجی بجلی گھروں سے ایسے معاہدے کئے کہ بجلی کی قیمت ڈالرز میں ادا کی جائے گی اور بجلی نہ خریدنے کی صورت میں بھی رقم ادا کی جائے گی، معاہدوں کے وقت دور اندیشی اور منصوبہ بندی نہ ہونے کے باعث آج پاکستانیوں کو استعمال نہ ہونے والی بجلی کی قیمت بھی ادا کرنا پڑ رہی ہے،کپیسٹی پیمنٹ کی مد میں واجبات 2100 ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں جو صارفین نے ادا کرنے ہیں۔

بجلی چوری اور آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں کے باعث ملک میں بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، یہ معاملہ یہیں نہیں رکے گا بلکہ بجلی چوری اور کپیسٹی پیمنٹس کے باعث خسارہ پورا کرنے کیلئے آنے والے وقت میں بجلی مزید مہنگی کرنی پڑے گی، بجلی مزید مہنگی ہونے سے چوری مزید بڑھے گی اور فوری اقدامات نہ اٹھائے گئے تو یہ سائیکل یونہی چلتا رہے گا۔

نئے مالی سال کے آغاز میں آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کیلئے بجلی کے بنیادی ٹیرف میں 7 روپے 12 پیسے اضافہ کرنا پڑا، فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں تین روپے 32 پیسے صرف ایک مرتبہ کا اضافہ الگ تھا، اس وقت بجلی کے ایک یونٹ کی کم سے کم قیمت 24 روپے 46 پیسے جبکہ زیادہ سے زیادہ 50 روپے 70 پیسے تک پہنچ چکی ہے، یوں ٹیکس ملا کر بجلی کی قیمت 64 روپے 69 پیسے تک پہنچ گئی ہے، صرف یہی نہیں بجلی بلوں پر گھریلو صارفین کیلئے 200 روپے سے ایک ہزار روپے تک فکسڈ ٹیکس بھی عائد کیا جا چکا ہے۔

بجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے نے عام شہری کو ہر ماہ ڈیفالٹ کرنے پر مجبور کر دیا ہے اور آبادی کے ایک بڑے حصے کی نصف سے زائد آمدن بجلی کے بلوں میں جانے لگی ہے، حکومت میں آ کر 300 یونٹ تک بجلی مفت کرنے کا دعویٰ کرنے والوں نے اقتدار سنبھالنے کے بعد عوام کو چکرا کر رکھ دیا ہے، بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا یہ وبال ایک ایسے وقت میں عوام کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے جب نیا مالی سا ل تنخواہ دار طبقے کیلئے ٹیکسوں کی صورت میں ایک ڈراؤنا خواب بن کر آیا ہے۔

یہ سب کچھ ہونے کے بعد بھی وزیر اعظم شہباز شریف کہتے ہیں کہ ملک کو مشکل صورتحال سے نکالنے کیلئے مزید کڑوے فیصلے کرنے ہوں گے، وفاقی کابینہ کے حالیہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ ملک میں بجلی کے لالے پڑے ہوئے ہیں، ملک میں بجلی چوری ہو رہی ہے، ٹرانسمیشن لائنوں کا بیڑا غرق ہو چکا ہے، فوری اقدامات کرنے ہونگے، اگر بیٹھے رہیں گے تو کام نہیں چلے گا۔

حکمران جماعت (ن) لیگ کو اس بات کا اندازہ ہو چکا ہے کہ اگر بجلی صارفین کو ریلیف نہ دیا گیا تو آئندہ الیکشن تو دور کی بات آئندہ چند ماہ میں ملک میں عوامی اور سیاسی ردعمل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم نے ترقیاتی فنڈز سے 50 ارب روپے نکال کر 200 یونٹس تک استعمال کرنے والے صارفین کو ستمبر تک حالیہ اضافہ منتقل نہ کرنے کی رعایت دی ہے، وفاقی حکومت کی جانب سے یہ ایک عارضی ریلیف ہے۔

بجلی بحران اس حد تک پاکستانی سیاست کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے کہ صوبائی حکومتوں کو بھی معاملے میں کودنا پڑ رہا ہے، خیبر پختونخوا حکومت لوڈ شیڈنگ کے معاملے کو تصادم کی جانب لے جا رہی ہے تو پنجاب حکومت بجلی صارفین کو ریلیف دینے کیلئے سولر سسٹم لانے کا اعلان کر رہی ہے۔

حکومت کو بجلی کی قیمتوں سے متعلق لانگ ٹرم پلاننگ کرنا ہوگی، آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظر ثانی کیلئے اقدامات کرنا ہوں گے، بجلی چوری پر قابو پانا ہوگا، سولر سسٹم کو گھریلو صارفین تک پہنچانے کیلئے سہولیات دینا ہوں گی، آئی پی پیز کو ادائیگیاں ڈالرز کے بجائے پاکستانی روپے میں کرنے کیلئے قائل کرنا ہوگا، ملک بھر میں ٹرانسمیشن، ڈسٹری بیوشن سسٹم میں بہتری لانا ہوگی، بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی نجکاری کرنا ہوگی، ان تمام اقدامات کے بعد ہی بجلی کی قیمتوں کو نیچے لایا جا سکتا ہے بصورت دیگر موجودہ حکومت اور اس کی اتحادی جماعتیں آئندہ الیکشن میں عوام میں جانے کے قابل نہیں رہیں گی۔

خیبر پختونخوا میں لوڈشیڈنگ کا معاملہ بجلی کی چوری اور لائن لاسز سے جڑا ہے جبکہ وزیر اعلیٰ کے پی کے وفاق کو ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں کہ خیبر پختونخوا کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا جا رہا ہے، خیبر پختونخوا میں بجلی کے لائن لاسز دیگر صوبوں کی نسبت سب سے زیادہ ہیں۔

خیبر پختونخوا میں بجلی نہ ملنے پر عوام سڑکوں پر ہیں تو پنجاب میں بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں، وفاقی حکومت نے بجلی چوری والے علاقوں میں لوڈ شیڈنگ کو قانونی قرار دینے کیلئے قانون میں تبدیلی کی ٹھان لی ہے۔