اسلام آباد (مدثر علی رانا) پاکستان ادار ہ شماریات نے ملک کی پہلی ڈیجیٹل اقتصادی شماری کے نتائج کا اعلان کردیا، پہلی اقتصادی شماری کے مطابق 71لاکھ 43 ہزار کاروباروں میں 2 کروڑ 53 لاکھ 44 ہزار ورک فورس موجود ہے، طبی اور تعلیمی اداروں کی تعداد انتہائی کم نکلی۔
ملک بھر میں صرف 1لاکھ 20 ہزار ہسپتال، 2 لاکھ 42 ہزار 616 سکولز، 11ہزار 568 کالجز، 214 یونیورسٹیز اور 36 ہزار 331مدارس ہیں، ملک میں مساجد کی مجموعی تعداد 6 لاکھ 403 جبکہ ہوٹلوں کی تعداد 2 لاکھ 56 ہزار ہے، پاکستان میں 2ہزار 83 افراد کے لیے ایک ہسپتال کی سہولت ہے۔
اقتصادی شماری کے مطابق 25 کروڑ آبادی کے لیے ہسپتال، سکول، کالجز، یونیورسٹی اور مدارس کی تعداد انتہائی کم ہے۔
اقتصادی شماری کے مطابق ہول سیل و ریٹیل سیکٹر میں 29 لاکھ ادارے موجود ہیں، ریٹیل دکانیں 27 لاکھ، ہول سیل دکانیں 1 لاکھ 88 ہزار، سروس شاپس 8 لاکھ 25 ہزار، فیکٹریز 23 ہزار اور پیداواری شاپس 6 لاکھ 43 ہزار ہیں، ہوسٹلز کی تعداد 16 ہزار 565 سے زیادہ، بینک 19 ہزار 645، پولیس تھانے 4 ہزار 387، نیم سرکاری ادارے 10 ہزار 452 اور سرکاری تنظیموں کی تعداد 29 ہزار 836 ہے۔
بتایا گیا ہے کہ سوشل سیکٹر میں 14.15 فیصد، پیداواری سیکٹر میں 24.8 فیصد، خدمات کے شعبے میں 57.86 فیصد اور دیگر شعبوں سے 3 فیصد لوگ منسلک ہیں۔
پنجاب میں 1 لاکھ 23 ہزار سکول، 6 ہزار 635 کالج، 91 جامعات اور 16 ہزار 117 مدارس ہیں، 12 کروڑ 80 لاکھ آبادی کے صوبے پنجاب میں 64 ہزار 821 ہسپتال ہیں، سندھ میں 57 ہزار 602 سکول، 1 ہزار 765 کالج، 43 جامعات، 5 ہزار 630 مدارس اور 27 ہزار ہسپتال ہیں، کے پی میں 45 ہزار 318 سکول، 2 ہزار 356 کالج، 46 جامعات، 11 ہزار 182 مدارس اور 20 ہزار 34 ہسپتال رجسٹرڈ ہیں۔
بلوچستان میں 14 ہزار 228 سکولز، 486 کالجز، 12 یونیورسٹیز، 3 ہزار 138 مدارس اور 5 ہزار 911 ہسپتال رجسٹرڈ کیے گئے ہیں، اسلام آباد میں 2 ہزار 392 سکول، 326 کالج، 22 یونیورسٹیز، 264 مدارس اور 2 ہزار 14 ہسپتال رجسٹرڈ ہیں۔
ملک بھر میں مجموعی طور پر 3 کروڑ 83 لاکھ 10 ہزار سے زائد بلڈنگ سٹرکچر موجود ہیں، جن میں رہائشی، معاشی سرگرمیوں، جھونپڑی، جھگی، ٹینٹ اور زیر تعمیر عمارتیں شامل ہیں، 25 کروڑ آبادی کے لیے 3 کروڑ 4 لاکھ سے زائد رہائشی بلڈنگز، 51 لاکھ 50 ہزار معاشی سرگرمیوں کی بلڈنگز، 11 لاکھ 60 ہزار رہائشی و معاشی سرگرمیوں کی بلڈنگز، 73 ہزار 400 رہائشی ملٹی سٹوری اپارٹمنٹس، 7 ہزار 600 ملٹی سٹوری اکنامک بلڈنگز، 53 ہزار جھونپڑی، جھگی، ٹینٹ اور 93 ہزار کے لگ بھگ زیر تعمیر بلڈنگز ہیں۔
پنجاب میں 43 لاکھ 60 ہزار کاروباروں میں 1 کروڑ 36 لاکھ سے زائد افراد برسرِروزگار ہیں، سندھ میں 13 لاکھ 80 ہزار کاروباروں میں 57 لاکھ 13 ہزار سے زائد افراد برسرِروزگار ہیں، خیبرپختونخوا میں 10 لاکھ سے زائد کاروباروں میں 39 لاکھ 81 ہزار سے زائد افراد برسرِروزگار ہیں۔
بلوچستان میں 3 لاکھ سے زائد کاروباروں میں 13 لاکھ 82 ہزار سے زائد افراد برسرِروزگار ہیں، اسلام آباد میں 86 ہزار کاروباروں میں 6 لاکھ 21 ہزار سے زائد افراد برسرِروزگار ہیں۔
اقتصادی شماری کے مطابق 71 لاکھ 43 ہزار کاروباروں میں سے 68 لاکھ 21 ہزار ایسے ہیں جہاں دس سے کم لوگوں کو روزگار ملا ہوا ہے، اسی طرح 3 لاکھ 22 ہزار کاروباروں میں 10 سے 250 تک لوگ برسرِروزگار ہیں، 50 تک ملازمین رکھنے والے کاروباروں کی تعداد 71 لاکھ 504 رجسٹرڈ کی گئی جبکہ 250 تک ملازمین رکھنے والے کاروباروں کی تعداد صرف 7 ہزار 86 ہے۔
گھروں میں کپڑوں کی سلائی میں 4 لاکھ 19 ہزار، کارپٹ مینوفیکچرنگ میں 8 ہزار، کڑھائی سلائی میں 1 لاکھ 48 ہزار، کھانے کی اشیاء کی پیکنگ میں ساڑھے 23 ہزار، ٹیوشن سینٹر میں 61 ہزار، پولٹری فارمنگ میں 1 لاکھ 44 ہزار، جانور پالنے میں 56 لاکھ، بیوٹی پارلر 46 ہزار، آن لائن سروسز 93 ہزار، کھانے پینے کی اشیاء کی پیداوار سمیت دیگر چھوٹے کاروباروں میں 44 لاکھ لوگ جڑے ہیں، مجموعی طور پر 1 کروڑ 9 لاکھ افراد گھروں میں معاشی سرگرمیوں سے منسلک ہیں۔
اقتصادی شماری کے مطابق 71 لاکھ 43 ہزار کاروباروں میں زراعت، جنگلات اور فشنگ کے شعبے میں 22 لاکھ 32 ہزار، مائننگ میں 5 ہزار 600، مینوفیکچرنگ میں 31 لاکھ 75 ہزار، کنسٹرکشن میں 39 ہزار 284، ہول سیل اینڈ ریٹیل میں 74 لاکھ 44 ہزار، ٹرانسپورٹ اینڈ سٹوریج میں 4 لاکھ 16 ہزار، انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن میں 2 لاکھ 84 ہزار، رئیل اسٹیٹ ایکٹیویٹیز میں 1 لاکھ 92 ہزار، ایجوکیشن میں 51 لاکھ 38 ہزار 696 اور دیگر خدمات کے شعبے میں تقریباً 25 لاکھ 85 ہزار افراد شامل ہیں۔
وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے اقتصادی شماری کے اجرا کے موقع پر کہا کہ پاکستان میں ڈیٹا کی بنیاد پر مستقبل میں زراعت کے سیکٹر کی منصوبہ بندی کی جا سکے گی، ہمسایہ ممالک اب تک سات اقتصادی شماریاں کر چکے ہیں، مستقبل کا دور اے آئی کا ہے اور ڈیجیٹل اکانومی کا ایندھن ڈیٹا ہے، پاکستان کی پہلی اقتصادی مردم شماری میں سپارکو سے بھی مدد لی گئی ہے، پالیسی ساز اور کاروباری طبقہ اب بہتر فیصلے کر سکیں گے۔
انہوں نے کہا کہ 4 کروڑ میں سے 1 کروڑ گھرانے ایسے ہیں جو معاشی سرگرمی میں کردار ادا کر رہے ہیں، پاکستان میں مائیکرو بزنس بڑھ رہا ہے اور خواتین گھریلو سطح پر کاروبار سے وابستہ ہیں، اقتصادی شماریات سے سائنسی بنیادوں پر معاشی منصوبہ بندی میں مدد ملے گی۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ اقتصادی شماریات خواتین کو معاشی طور پر خودکفیل بنانے کے حوالے سے بھی اہم ہیں، اقتصادی مردم شماری وقت اور وسائل کی بچت کے ساتھ زرعی و دیہی معیشت میں ہم آہنگ فیصلے ممکن بنائے گی، کسی بھی ملک کی ترقی ٹھوس ڈیٹا اور شواہد پر مبنی پالیسی سازی کے بغیر ممکن نہیں۔ معاشی شماری غیر رسمی معیشت کو قومی دھارے میں لانے کا موقع ہے اور یہ پاکستان کی معاشی خودکفالت، سرمایہ کاری کی توسیع اور روزگار کے مواقع کا ذریعہ ہے۔