لاہور (دنیا نیوز) پنجاب گروپ کے زیر اہتمام الحمرا ہال میں اتوار کے روز انڈس کانکلیو 2025 کے حوالے سے ایک زبردست سیشن کا انعقاد کیا جس کا عنوان تھا ’میپنگ کل: کمیونٹی، کلائمیٹ ریزیلینس اینڈ دی فیوچر آف سٹیز، جس میں فن تعمیر، پائیداری اور شہری ڈیزائن میں اہم علاقائی آوازوں کو ایک پلیٹ فارم تلے جمع کیا گیا۔
سیشن میں بحث اس بات پر مرکوز تھی کہ ماحولیاتی تبدیلیوں، تیزی سے پھیلتے شہر اور ماحولیاتی انحطاط کے بڑھتے ہوئے چیلنجوں کے درمیان مختلف طبقے شہروں کا دوبارہ تصور کیسے کر سکتے ہیں۔
پینل میں چار ممتاز ماہرین شامل تھے جن میں سری لنکا کے معروف ماحولیاتی معمار سنیلا جے وردھنے، ماہر تعمیرات اور محقق ماروی مظہر، ریسرچ فیلو یونیورسٹی آف سیکس ڈاکٹر صدف سلطان، اور پاکستانی ماہر تعمیرات اور تحفظ پسند رضا علی دادا تھے۔
ماحولیاتی معمار کے طور پر گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے سنیلا جے وردھنے نے سری لنکا کی قدیم نوآبادیاتی ثقافتی روایات سمیت اپنے پیشہ ورانہ سفر کا اعادہ کیا اور جنوبی ایشیا میں ماحولیات کے حوالے سے شعور بیدار کرنے کے حوالے کے ساتھ موجودہ ماحول میں ماحولیاتی تحفظ کی ضرورت پر زور دیا۔
انہوں نے اپنے تاحیات اُمور نمٹانے کے مختلف نقاط پر بھی روشنی ڈالی ، سنیلا جے وردھنے نے زمین کو ٹھنڈا کرنے،( ریوائلڈنگ ) پانی کو برقرار رکھنے، ماحولیاتی توازن کو برقرار رکھنے اور مقامی انواع کے ساتھ زمین کی تزئین کے ذریعے مقامی حیاتیاتی تنوع کو بحال کرنے کے عمل کو وضاحت سے بیان کیا۔
اُنہوں نے اِس بات پر بھی زور دیا کہ پاکستان آنے پر اُنہوں نے اِس بات کا بھی تفصیلی جائزہ لیا ہے کہ ایسے اقدامات یہاں کے شہری ہر جگہ پر کرسکتے ہیں، اپنے گھروں، بالکونیوں کو مزید خوبصورت بنانے کے ساتھ اںہیں رہنے کے قابل بنا سکتے ہیں۔
نیئر علی دادا اینڈ ایسوسی ایٹس کے مینیجنگ پارٹنر رضا علی دادا نے لاہور شہر کے چیلنجز، خاص طور پر تاریخی مال روڈ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حالات میں عوامی مقامات کو بحال کرنے کی ضرورت کو اُجاگر کرنا ہوگا، جو شہریوں کو جامع، منظم اور قابل رسائی ماحول کے ذریعے ’دوبارہ عوامی ہونے‘ کے قابل بناتا ہے۔
لاہور Biennale فاؤنڈیشن کے ساتھ اپنی خدمات کے حوالے سے گفتگو میں نیئر علی دادا نے بتایا کہ اںہوں نے کس طرح آرٹ کی زیرقیادت شہری کی مدد سے ہمارے نظر انداز کیے گئے قومی ورثہ کے مقامات کو کیسے حاصل کیا، اِن میں بریڈلاف ہال اور YMCA شامل ہیں، اِس اقدام سے شہروں کو شہر کی تعمیراتی میراث کے بارے میں آگاہی کو فروغ ملا۔
سسیکس یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر صدف سلطان نے شہری اشکال پر تحقیق اور شہریت کا آپس میں تقابل کے موضوع پر مبنی نقطہ نظر پیش کیا ، انہوں نے وضاحت دیتے ہوئے شرکا کی توجہ اِس طرف مبذول کرائی کہ ممالک کے نقشے محض جغرافیائی آلات نہیں ہیں بلکہ سیاسی آلات ہیں جو پسماندہ قوموں کو یا تو مٹا سکتے ہیں یا انہیں بااختیار بنا سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کراچی، ڈھاکہ، اور فری ٹاؤن کی غیر رسمی بستیوں میں شراکتی نقشہ سازی پر اُن کے تحقیقاتی کام نے مقامی نوجوانوں کو اپنے محلوں کا نقشہ بنانے، اہم بنیادی ڈھانچے کو دستاویز کی شکل میں منتقل کرنے کے ساتھ ماحولیاتی اور سماجی بہتری کیلئے نمائندگی کرنے کے قابل بنایا ہے۔
ماروی مظہر نے کراچی کے ساحلی ماحولیات اور شہری ترقی پر اپنی تحقیق پر مبنی گفتگو کرتے ہوئے ایک وسیع خاکہ پیش کیا، دوران گفتگو انہوں نے اپنے منصوبوں کے حوالے سے بصری ثقافت اور مقامی نمائندگی کو ملاتے ہوئے شہریوں کیلئے جامع منصوبہ بندی کی اہمیت کو اُجاگر کیا ،جو ماحولیاتی حدود اور شہریوں کی ضروریات کا کس طرح خیال رکھتی ہے۔
سیشن کے دوران پینل میں شریک تمام ماہرین نے اِس بات پر بھی زور دیا کہ پائیدار شہری مستقبل کا انحصار شہریوں، معماروں، فنکاروں اور پالیسی سازوں کے درمیان مضبوط تعاون کا مرہونِ منت ہے۔
سیشن کا اختتام اِس مشترکہ ویژن کے ساتھ ہوا کہ مستقبل میں شہروں کو نہ صرف تکنیکی طور پر ترقی یافتہ ہونا چاہیے بلکہ شہریوں کو ماحولیاتی طور پر باشعور اور سماجی طور پر اپنی ثقافت سے مضبوط رشتہ بنانا ہوگا۔