والی بال کی ترقی کیسے ہو؟

Last Updated On 12 July,2020 09:30 pm

لاہور: (خصوصی ایڈیشن) پاکستان والی بال فیڈریشن کا قیام 1955ء میں عمل میں آیا۔ پاکستان کی انڈر 23 ٹیم اس وقت عالمی رینکنگ میں 22 ویں جبکہ سینئر ٹیم 59ویں نمبر کی ہے۔

یہ بات خوش آئند ہے کہ پاکستان والی بال کی ٹیم نے کئی کامیابیاں سمیٹی ہیں جس سے نوجوانوں میں اس کھیل کی طرف رجحان بڑھا ہے ۔قومی ٹیم نے ایشین گیمز میں چین جیسی سخت ٹیم کو ناکوں چنے چبوائے تھے اور پاکستانی کھلاڑیوں نے زبردست پرفارمنس کا مظاہرہ کرتے ہوئے انڈیا کو بھی شکست دی تھی۔

والی بال ان کھیلوں میں سے ایک کھیل ہے جسے پاکستان میں نظر انداز کیا جاتا رہا ہے ۔ پچھلے سال نامناسب حالات کے باوجود لاہور میں نیشنل چیمپئن شپ کا انعقاد ہوا تھا جس میں واپڈا فاتح رہی ۔ فائنل میں پاک آرمی اور واپڈا کا اعصاب شکن میچ ہوا تھا اور آخری رائونڈ میں جاکر واپڈا نے 15-13 سے کامیابی حاصل کی تھی۔

اختتامی تقریب کو جس طرح کم وسائل کے باوجود رنگا رنگ طریقے سے سجایا گیا تھا اس طرح اسے میڈیا پر پذیرائی نہیں مل سکی تھی ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جس طرح کرکٹ کو کوریج ملتی ہے اس طرح دوسری کھیلوں کو کوریج نہ بھی ملے تو تھوڑی بہت ضرور ملنی چاہیے۔

قومی کھلاڑی ایشیا لیول پر نمایاں ہیں جن میں نصیر احمد قومی ٹیم کے کپتان بھی رہے ہیں۔ اس وقت واپڈا ٹیم کے سات کھلاڑی قومی ٹیم کا حصہ ہیں اس کے علاوہ چار(نصیراحمد، منیراحمد، محب رسول، ایمل خان) کھلاڑی انٹرنیشنل لیگ کھیل رہے ہیں۔

واپڈا کے نصیر احمد، ایمل خان(سپائیکر)، منیر احمد، محب رسول، مراد جہاں، مراد خان بہترین پرفارمر کھلاڑی مانے جاتے ہیں جبکہ پاک آرمی کے ظہیر احمد، فاروق حیدر، فخراور حیدر رضوان ٹاپ کے کھلاڑی ہیں۔

نیشنل چیمپئن شپ کیلئے اگر دیکھا جائے تو حکومت کی طرف سے کوئی فنڈز نہیں ملتے ، جتنی بھی سپانسرشپ ملتی ہے وہ فیڈریشن کو خود بندوبست کرنا پڑتی ہے جس میں اہم کردار چیئرمین فیڈریشن چوہدری یعقوب کا ہی ہوتا ہے۔ فیڈریشن کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ بڑی سپانسرشپ مل گئی تو جلد نیشنل والی بال لیگ بھی ہوگی۔

فیڈریشن کو اس وقت سب سے زیادہ فنڈز کی کمی کا سامنا ہے ۔ ایران کو دیکھ لیں ۔ پاکستان ایران سے پہلی دفعہ 1958میں کھیلا تھا اور ایران کو ہرایا تھااس کے بعد ایران نے والی بال میں ایسی ترقی کی کہ آج ورلڈ میں بہترین پوزیشن بنالی ہے، ایشیا میں ٹاپ پر ہے۔

ان کی جونیئر سے سینئر ٹیم تک ٹاپ ہے ۔ ان کی والی بال ٹیم میں نوجوان بھرے پڑے ہیں ان کا فنڈز کا ایک سسٹم ہے ۔ اگر گورنمنٹ یہ موقع دے کہ8 سے12 سال کے بچوں کو ٹریننگ دی جائے تو ہماری ٹیم بھی ورلڈ رینکنگ میں کہیں سے کہیں چلی جائے۔اگر سپانسرز ہی کیمپ لگا کر دے دیں تو پاکستان میں والی بال بہت ترقی کرجائے۔

اہم بات یہ ہے کہ نیشنل چیمپئن شپ کے موقع پر9 سپانسرز سامنے آئے تھے ، اگر اسی طرح سپانسرز سامنے آتے رہے تو جلد والی بال پاکستان میں بلندیوں کو چھو لے گاکیونکہ نوجوان بڑی تعداد میں والی بال کی طرف آرہے ہیں اور پاکستان میں والی بال کا بہت ٹیلنٹ ہے۔

پاکستان والی بال ٹیم نے اپنی اچھی کارکردگی کی بدولت اولمپک 2020ء کے کوالیفائی رائونڈ کیلئے پہلی مرتبہ کوالیفائی کرلیا تھا اور ایشیا کی ٹیموں میں شامل ہوگئی تھی لیکن فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے ٹیم کوالیفائی رائونڈ میں شرکت نہ کرسکی ۔ فیڈریشن نے حکومت سے رابطہ کیا لیکن حکومت نے کہا کہ ان کے پاس فنڈز نہیں ہیں ۔ دیکھا جائے تو بجٹ میں سپورٹس کیلئے 99کروڑ روپے ہوتے ہیں۔

اگرچہ عمران خان کی حکومت نے اس مرتبہ اپنی طرف سے دعویٰ کیا کہ تمام فیڈریشنز کو دیئے جانیوالے فنڈز میں سے سب سے زیادہ فنڈز 3 ملین روپے نیشنل والی بال فیڈریشن کو دینے کا اعلان کیا لیکن یہ ناکافی ہے (بقول حکومت باقی فیڈریشنز کو1.5 ملین سے دو ملین روپے دیئے جبکہ سب سے زیادہ والی بال کو دیئے گئے )۔ وفاقی حکومت معاملات صوبوں کی طرف کرکے بری الذمہ ہوجاتی ہے اور جب صوبوں سے بات کی جائے تو وہ بھی ہاتھ کھڑے کردیتے ہیں۔

ایسے میں فیڈریشنز مایوس ہوکر بیٹھ جاتی ہیںاور نقصان کھلاڑیوں کا ہوتا ہے ۔ کھلاڑی کھیلنا چاہتے ہیں لیکن کھیل نہیں پاتے۔ اللہ کرے والی بال جس رفتار سے چل رہا ہے تیزی سے آگے بڑھتا رہے۔

3ملین فنڈز کے حوالے سے والی بال کے چیئرمین چوہدری یعقوب کا کہنا تھا کہ حکومت کی طرف سے اعلان کردہ یہ خصوصی گرانٹ ہے ، یہ سالانہ گرانٹ نہیں ہے اور والی بال فیڈریشن کی حکومت سے پچھلے سال سے بات چل رہی تھی یہ رقم (3ملین)اس مد میں ہے ، پچھلے سال ستمبر میں دیئے تھے جب ٹیم باہر جارہی تھی۔

یہ جو تاثر دیا جارہا ہے کہ دوسری فیڈریشنز سے زیادہ رقم ملی ہے یہ بات غلط ہے کیونکہ حکومت سے ٹیم کو مختلف ایونٹس میں بھجوانے کے حوالے سے بات ہوئی تھی۔ پچھلے سال فہمیدہ مرزا سے بات کی گئی تھی تو انہوں نے کہا تھا کہ فنڈز نہیں ہیں۔ ٹیم کی کارکردگی اچھی تھی۔

اس لئے انہوں نے فنڈز کو زیادہ دکھایا۔گزشتہ سال چیمپئن شپ میں پاکستان کی والی بال ٹیم نے جاپان ، آسٹریلیا، قطر، سری لنکا، بحرین جیسی ٹیموں کو ہرایا تھا ۔ اس کے علاوہ ایشین چیمپئن شپ میں سینئر ٹیم نے انڈیا کو بھی شکست دی تھی ۔ 2018 کی ایشین گیمز جکارتہ میں پاکستان کی ٹیم نے انڈیا اور چین جیسی مضبوط ٹیموں کو شکست دیکر کامیابیاں سمیٹی تھیں ۔

پاکستان کے کھلاڑی گرمی میں ہالز میں پریکٹس کرکے بیرون ملک جاکر کھیلتے رہے ہیں ۔ چوہدری یعقوب نے شکایت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے ہمیں اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر فنڈ دیئے اس کے باوجود فیڈریشن حکومت کی شکرگزار ہے۔

پچھلے تین سالوں میں ہم نے اپنی جیب سے 6 سے7 کروڑ روپیہ خرچ کیا ہے ۔ ٹیم کی ٹریننگ کیلئے غیرملکی کورین کوچ رکھا گیا جس کی تنخواہ 4ہزار ڈالر تھی۔ نئے ٹیلنٹ کیلئے اکیڈمیز کام کر رہی ہیں۔ کورونا سے پہلے کیمپ بھی لگائے گئے۔

ابھی حال ہی میں 600افراد نے آن لائن کوچنگ کورس کیا تو آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ والی بال کی طرف نوجوانوں کا کتنا رجحان ہوگا۔ اس وقت ہمارے پول میں 300نیشنل لیول کے ہائی پرفارمنس کھلاڑی موجود ہیں۔

انڈر18 اور انڈر 20 ایشیا کپ اگست میں شرکت کیلئے ٹرائلز ہوچکے ہیں ان کا کیمپ جوں ہی کورونا ختم ہوگا لگے گا۔ ساہیوال، سیالکوٹ، پشاوراور بنوں میں اکیڈمیاں کام کررہی ہیں ۔ کورونا کے بعد انشا ء اللہ فیڈریشن والی بال لیگ بھی کرائے گی۔

تحریر: طیب رضا عابدی