لاہور: (روزنامہ دنیا) ذہنی طور پر پسماندہ بچوں کا مسئلہ کوئی نیا مسئلہ نہیں۔ قدیم زمانے میں لوگ ذہنی طور پر پسماندہ افراد کے متعلق یہ خیال کرتے تھے کہ وہ بھوت پریت وغیرہ کے تابع ہیں۔ چنانچہ ایسی مثالیں بھی ملتی ہیں جن میں انہیں طرح طرح کی اذیتیں دی گئیں۔ انہیں لعنت ملامت کی جاتی، انہیں احمق یا پاگل کہہ کر پکارا جاتا تھا۔ اور ان کی رہنمائی اور بحالی کی طرف توجہ نہ دی جاتی۔
اب حالات بدل چکے ہیں۔ ذہنی معذوری کے بارے میں سائنسی معلومات بہت بڑھ چکی ہیں۔ اسے روکنے کے طریقے کافی حد تک وضع ہو چکے ہیں اور بحالی کے لیے ادارے قائم ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ذہنی طور پر پسماندہ بچے کافی تعداد میں موجود ہیں اور آبادی میں اضافے کے ساتھ روزبروز ان کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ بدنصیب بچے اپنی ذہنی پسماندگی اور نااہلی کے باعث دوسرے لوگوں کے محتاج ہوتے ہیں۔ انہیں قدم قدم پر رہنمائی کی ضرورت پڑتی ہے۔ ایسے بچوں میں قوت مشاہدہ مفقود ہوتی ہے، قوت استدلال کی کمی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ زندگی کے معمولی مسائل بھی حل کرنا ان کے لیے دشوار ہوتا ہے۔ قدرے پیچیدہ مسائل کو حل کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔
ان بدنصیب بچوں کی طرف بہت کم توجہ دی جاتی ہے۔ گھروں میں بعض والدین ہی انہیں ناپسندیدگی کی نگاہوں سے نہیں دیکھتے بلکہ مدرسے میں اساتذہ بھی سختی کا رویہ اپناتے ہیں۔ انہیں احمق اور پاگل کہہ کر پکارا جاتا ہے، ان کا تمسخر اڑایا جاتا ہے۔ ایسے بچے اپنی ذہنی پسماندگی کے باعث مدرسے کے تعلیمی معیار پر پورا نہیں اترتے اور کوشش کے باوجود مدرسے کے تعلیمی ماحول کے ساتھ مطابقت پیدا کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔
اکثر اوقات اساتذہ تعلیم و تدریس کے دوران اپنا صبر و تحمل کھو بیٹھتے ہیں اور وہ زیادہ نفسیاتی و ذہنی تشدد کا نشانہ بنتے ہیں۔ اس کے باعث وہ مدرسے سے بھاگنا شروع کر دیتے ہیں۔ ان عوامل نے ذہنی طور پر پسماندہ بچوں کا مسئلہ بہت سنگین بنا دیا ہے جو ہماری فوری توجہ کا مستحق ہے۔ ذہنی طورپر پسماندہ بچوں کی توجہ اپنی طرف کھینچنا ذرا مشکل کام ہوتا ہے۔ ان کی دلچسپیاں بہت کم ہوتی ہیں اور ان کی توجہ میں بآسانی رکاوٹ ڈالی جا سکتی ہے۔ یہ کسی کام کی طرف دیر تک توجہ مرکوز نہیں کر سکتے۔ ان کا حافظہ عام طور پر کمزور ہوتا ہے۔ ان بچوں میں قوت متخیلہ یا تخلیقی قابلیت بہت کم ہوتی ہے۔ تاہم ان میں سے بعض کی کسی خاص پہلو میں صلاحیت زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔
ذہنی طور پر پسماندہ بچے شخصیت کے لحاظ سے بہت مختلف ہوتے ہیں۔ اکثر بچے اطاعت گزاری اور عجز و انکساری سے کام لیتے ہیں اور دوسروں سے بہت جلد متاثر ہوتے ہیں۔ ذہنی پسماندگی کے بہت سے اسباب ہیں اور اکثر حالتوں میں دو یا دو سے زیادہ عوامل ذہنی پسماندگی میں حصہ لیتے ہیں۔ تحقیقات سے اس بات کا پتہ چلا ہے کہ وراثت ذہنی پسماندگی کا بہت بڑا سبب ہے۔ ذہنی طور پر پسماندہ والدین کی اولاد کے بھی اسی طرح ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔
ناسازگار معاشرتی اور اخلاقی حالات بھی ذہنی پسماندگی کا باعث بنتے ہیں۔ اگر بچوں کو مناسب غذا میسر نہ آئے اور غذا ناقص ہو تو ایسی صورت میں بھی ذہنی پسماندگی جنم لے سکتی ہے۔ جو والدین منشیات کا بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں ان کے بچوں میں بھی یہ مسئلہ ہو سکتا ہے۔ پیدائش کے بعد دماغ کو کسی قسم کی ضرب پہنچنے سے بھی یہ پسماندگی ہو سکتی ہے۔
دماغ کے پردوں میں سوزش کے باعث بھی ایسا ہوتا ہے۔ تھائی رائیڈ غدود میں کسی قسم کی خرابی کے باعث بھی یہ مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔ پیدائش سے قبل چوٹ بھی اس کا سبب ہو سکتی ہے۔ تابکاری سے متاثر ہونے والی ماؤں میں جسمانی و ذہنی طور پر معذور بچوں کے پیدا ہونے کا امکان ہوتا ہے۔ منگول شکل سے ملتے جلتے بچوں میں بھی ذہنی پسماندگی پائی جاتی ہے جو ایک جین کی وجہ سے ہے۔ ان کے سر چھوٹے ہوتے ہیں۔ اسے ڈاؤن سینڈروم کہا جاتا ہے۔ ان میں ذہنی پسماندگی کے مختلف درجے ہوتے ہیں۔ یہ بچے ہماری توجہ کے مستحق ہیں۔ اگرچہ یہ معاشرے کے لیے جسمانی و ذہنی طور پر صحت مند افراد کی طرح مفید نہیں لیکن یہ انسان ہیں۔ ان کے ساتھ شفقت کے ساتھ پیش آنا چاہیے۔ نیز ذہنی معذوری کے اسباب پر قابو پانے کی کوشش بھی کرنی چاہیے۔
تحریر: گلزار احمد