بچوں کے نفسیاتی مسائل اور حل

Last Updated On 23 June,2018 09:38 am

لاہور: (روزنامہ دنیا) سبھی بچوں کو گھر اور مدرسے میں کبھی کبھی مشکلات درپیش ہوتی ہیں۔ ایسے موقعے بھی آتے ہیں جب طبیعت پر تفکرات کا بوجھ، مزاج میں اشتعال اور مسلسل خوف اور مشکلات کا احساس ان پر حاوی ہوتا ہے۔ ان مشکلات پر قابو پانے کے لیے بچوں کی رہنمائی، والدین اور اساتذہ کی ایک مستقل ذمہ داری ہے۔ رہنمائی کا یہ فریضہ وہ کبھی کبھار شعوری طور پر انجام دیتے ہیں، لیکن انہیں اکثر و بیشتر اس بات کا احساس بھی نہیں ہوتا کہ رفعِ مشکلات میں ان کی مدد بچوں کے شاملِ حال بھی رہی ہے۔

بہرحال، بعض ایسے بچے بھی ملتے ہیں جن کی جذباتی مشکلات بدستور رہتی ہیں، باوجودیکہ والدین اور اساتذہ تمام دانش مندانہ صورتیں اختیار کرتے ہیں۔ ایسے بچے افسردہ اور جذباتی طور پر بے چین رہتے ہیں۔ یہ وہی بچے ہیں، جن کے بارے میں احساس ہوتا ہے کہ گھر میں ہمیشہ کچھ نہ کچھ مانگتے رہتے ہیں، جو مدرسے کے ماحول سے مفاہمت نہیں کر سکتے، جو اپنے ہم جولیوں میں دوست نہیں بنا سکتے، اور جنہیں کھیل کود سے دلچسپی نہیں ہوتی۔ وہ بچے جو اس قدر اہم جذباتی مسائل سے دوچار ہوں، خاص توجہ اور امداد کے مستحق ہیں۔

ہمارے ملک میں والدین اور اساتذہ ایسے بچوں کے بارے میں اکثر فکر مند رہتے ہیں اور صورت حال سے مایوس ہو جاتے ہیں کیونکہ ان بچوں کے لیے کسی طرح کی مدد حاصل کرنا دشوار ہوتا ہے۔ مدد کہاں سے لی جائے؟ یہ بات بجائے خود ایک مسئلہ ہوتی ہے، اس لیے کہ صرف تربیت یافتہ اور مستند افراد ہی بچوں کے مسائل کو کامیابی سے حل کر سکتے ہیں۔

ایسے تربیت یافتہ اور مستند افراد سے ملاقات اطفال کی رہنمائی کے کلینک میں کی جا سکتی ہے۔ یہ کلینک بچوں، بچوں کے والدین اور اساتذہ کی اعانت کا وسیلہ ہوتا ہے۔ کلینک میں تربیت یافتہ افراد موجود ہوتے ہیں۔ یہ بچوں کی مشکلات کا سراغ لگاتے ہیں اور پھر ہر بچے کو صحیح راہ پر لانے کے لیے مؤثر تدبیریں اختیار کرتے ہیں۔ جب کسی خاص مسئلے کی بنا پر کسی بچے کا معاملہ کلینک کے سپرد کیا جاتا ہے تو سب سے پہلے والدین کو اطلاع دی جاتی ہے کہ بچے کو کلینک میں لائیں۔

بچے کو اچھی طرح اطمینان دلا دینا چاہیے کہ وہ خاص ڈاکٹر تمہارا معائنہ نہیں کرے گا اور کوئی دوا یا ٹیکا نہیں دے گا، بچے کو بتا دینا چاہیے کہ تم وہاں جا کر بہت خوش ہو گے کیونکہ وہاں کھیلنے کے لیے اچھے اچھے کھلونے ملیں گے اور پڑھنے کے لیے کہانیوں کی کتابیں۔ بچہ جب کلینک میں لایا جاتا ہے تو نفسیات داں یا سائیکالوجسٹ اس کے ساتھ دوستی پیدا کر لیتا ہے۔ اب بچہ اس ماحول میں پوری آسائش محسوس کرتا ہے۔

اس دوران میں سوشل ورکر، بچے کے والدین سے اصل مسئلے پر تبادلۂ خیال کرتا ہے اور اس مدرسے کے بارے میں، جہاں بچہ پڑھتا ہے، جانتا ہے۔ مدرسے میں اس کے طرزعمل کی بابت اطلاعات حاصل کرتا ہے۔ مسئلے کی تشخیص اور علاج کی جانب پہلا قدم یہ ہوتا ہے کہ والدین سے بچے کا طبی معائنہ کرانے کے لیے کہا جائے۔ طبی رپورٹ حاصل ہونے کے بعد، سوشل ورکر بچے کے گھر جاتا ہے تاکہ مسئلے کی نوعیت پر زیادہ تفصیل سے بات چیت کر سکے اور معلوم کرے کہ وہ مسئلہ پیدا کیوں کر ہوا اور کس طرح کی مدد درکار ہے۔

سوشل ورکر بچے کے استاد سے بھی رابطہ پیدا کرتا ہے اور مدرسے میں بچے کے رویے کی بابت مزید اطلاعات حاصل کرتا ہے۔ ماہر نفسیات، جسے ذہانت اور شخصیت کے امتحان لینے اور نتائج مرتب کرنے کی مہارت حاصل ہوتی ہے، دونوں طرح سے بچے کا امتحان لیتا ہے۔ ان امتحانات کے نتائج سے یہ سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ ایک بچہ دوسرے سے مختلف کیوں ہے؟ مختلف حالات سے دوچار ہونے پر اس کا ردعمل کیا ہوتا ہے اور اسے اگر مدد دی جائے تو کہاں تک سود مند ہوگی؟

بچے کے جذباتی مسئلے کی صحیح تشخیص کی خاطر سائنٹیفک اطلاعات حاصل ہونی ضروری ہیں۔ جب سماجی کارکن بچے کی، ۱۔ صحت جسمانی اور ماحول، ۲۔ گھریلو کوائف اور پس منظر اور ۳۔ مدرسے میں اس کے رویے کی بابت اطلاعات حاصل کر چکتا ہے اور نفسیات داں اس کی ذہانت اور شخصیت کے بارے میں سائنٹیفک معلومات بہم پہنچاتا ہے، کلینک کا عملہ باہم سر جوڑ کر مسئلے پر غور کرتا ہے۔ اگر یہ مسئلہ معمولی نوعیت کا ہے اور بچے کی شخصیت میں اس کی جڑیں گہری نہیں، تو عملے کے لوگ بچے کی امداد کے پیش نظر والدین اور اساتذہ کو سادہ سے مشورے دے دیتے ہیں ورنہ تفصیلی علاج ہوتا ہے۔

تحریر: مس اقبال ڈار