تل ابیب: (ویب ڈیسک) مکینیکل انجینئروں نے چمگادڑ کی طرح آواز کی لہروں سے رکاوٹوں کا پتہ لگا کر اپنا راستہ تلاش کرنے والا روبوٹ بنایا ہے جو اپنا کام عین چمگادڑ کی طرح سیکھنے کا عمل بھی انجام دیتا ہے، اسے روبیٹ کا نام دیا گیا ہے۔
تل ابیب یونیورسٹی میں انجینئر یوسی یوول اور ان کے ساتھیوں نے روبیٹ میں سپیکر چمگادڑ کے منہ کا کام کرتا ہے جبکہ اس کے دائیں اور بائیں جانب دو مائیکروفون جانور کے کان کی طرح برتاؤ کرتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ بعض چمگادڑوں کی نظر بہت ہی خراب ہوتی ہیں یا وہ بالکل نابینا ہوتی ہیں۔ یہ اپنے منہ سے مخصوص فریکوئنسی کی آواز خارج کرتی ہیں جو سامنے رکاوٹ سے ٹکرا کر واپس لوٹ کر ان کے کانوں تک پہنچتی ہے۔ اس طرح نہ صرف چمگادڑ کسی رکاوٹ سے ٹکرانے سے محفوظ رہتی ہے بلکہ اسے رکاوٹ کے فاصلے کا بھی درست احساس ہوتا ہے۔ اس عمل کو ’ایکولوکیشن‘ کہا جاتا ہے۔
روبیٹ کو آزمائش کےلیے ایک گرین ہاؤس میں چھوڑا گیا جہاں جابجا پودے اور گملے موجود تھے۔ روبیٹ نے سب سے پہلے چلتے ہوئے نصف میٹر دوری سے آواز خارج کی جو رکاوٹ سے ٹکرا کر واپس دو مائیکروفونز تک لوٹی۔ اس طرح روبوٹ کسی کیمرے کے بغیر رکاوٹوں سے بچتا ہوا آگے بڑھتا رہا۔ یوسی کے اس روبیٹ کا الگورتھم اسے مسلسل سیکھنے کے عمل سے گزارتا ہے اور ایک وقت میں وہ پودے اور دیگر اشیا کے درمیان تمیز بھی کرسکتا ہے۔ اس طرح کے روبوٹ کو حادثات کی صورت میں مدد کےلیے اور شدید موسم میں بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔