بیجنگ: (ویب ڈیسک) چین میں نئی پالیسی متعارف کرا دی گئی ہے جس کے مطابق صارفین کو نئی موبائل فون سم کی خریداری کیلئے چہرے کو اسکین کرنا لازمی ہو گا۔
برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق پابندی کا اطلاق یکم دسمبر سے ہو گیا ہے اور اب کوئی بھی شہری نئے موبائل یا سیلولر ڈیٹا کنکشن لینے کے لیے شناختی کارڈ کے ساتھ اپنی شناخت کے لیے فیس سکین کو بھی جمع کرانے کا پابندی ہوگا۔۔
یاد رہے کہ چین دنیا بھر میں ٹیکنالوجی کی مہارت میں بازی لے جانے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا رہا ہے، ٹیکنالوجی کے باعث دنیا بھر میں چین اپنے حریف امریکا کو پچھاڑنے کے لیے نت نئی ایجادات کر تا رہتا ہے، چند سال قبل چین کی طرف سے ایک ایسی دور بین متعارف کرائی تھی جس کے بعد ہزاروں میل دور سے کسی بھی چیز کو بآسانی دیکھا جا سکے گا۔
برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق چہرے کی شناخت کے بعد سے فراڈ کے امکانات کم ہو جائینگے تاہم ایسا بھی سننے میں آیا ہے کہ حکومت کیلئے اسکے ذریعے لوگوں پر نظر رکھنا آسان ہو گا۔
واضح رہے کہ چین کی طرف سے متعارف کرائے گئے قانون کا اعلان ستمبر میں کیا گیا تھا اور اب عملدرآمد شروع ہوگیا ہے، حکومت کے مطابق وہ آن لائن دنیا میں شہریوں کے قانونی حقوق، مفادات کا تحفظ چاہتی ہے۔
خبر رساں ادارے کے مطابق چین کی جانب سے پہلے ہی چہرے کو شناخت کرنے والی ٹیکنالوجی یا فیشل ریکیکنیشن کا استعمال آبادی کے سروے کیلئے کیا جارہا ہے۔ تاہم ابھی تک واضح نہیں ہے کہ فیس سکین کو تصدیق عمل کے بعد کس مقصد کے لیے استعمال کیا جائے گا مگر امکان یہی ہے کہ اسے دیگر ڈیٹا کا حصہ بنادیا جائے گا۔
چین میں اس وقت سم کارڈ رجسٹر کرانے کے لیے شناختی کارڈ یا پاسپورٹ جمع کرانا پڑتا ہے مگر اپنے چہرے کو سکین کرانا ہو گا تاکہ شناختی کارڈ سے مطابقت کی تصدیق ہوسکے۔ چین کی جانب سے کافی برسوں سے ایسے قوانین کا اطلاق کیا جارہا ہے جس کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ انٹرنیٹ استعمال کرنے والا ہر صارف اصل نام سے اس سہولت کو استعمال کرے۔
2017 میں نئے قوانین کا اطلاق کیا گیا تھا جس کے تحت انٹرنیٹ پلیٹ فارمز پر آن لائن مواد سے قبل صارف کی اصل شخصیت کی تصدیق ضروری قرار دی گئی۔ 2017 میں 17 کروڑ سی سی ٹی وی کیمرے ملک بھر میں نصب کیے گئے اور اس تعداد کو 2020 تک 40 کروڑ تک پہنچانے کا منصوبہ ہے۔
اس کے علاوہ چین میں شہریوں کے لیے نیا سوشل کریڈٹ سسٹم بھی متعارف کرایا گیا جس کا مقصد ریاستی سطح پر اچھے یا برے ہونے کا تعین رویوں کو مدنظر رکھ کر کرنا تھا۔ سوشل کریڈٹ سسٹم کو متعارف کرانے کا اعلان 2014 میں کیا گیا تھا اور دستاویزات کے مطابق اس کا مقصد شہریوں پر اعتماد رکھنا زبردست جبکہ اعتماد کو توڑنا وقار کے خلاف ہے۔
پروگرام کا مکمل اطلاق تو 2020 میں ہو گا مگر اب بھی اس کی آزمائش کروڑوں افراد پر ہورہی ہے اور ہر ایک کے لیے اس میں شامل ہونا لازمی ہے۔ اس وقت اس پروگرام کے کچھ حصوں کو سٹی کونسلز جبکہ دیگر کو ذاتی ڈیٹا رکھنے والی نجی ٹیکنالوجی پلیٹ فارمز کے ذریعے حتمی شکل دی جارہی ہے۔
2020 میں ایک بڑے قومی ڈیٹا بیس کو چہرے اور حکومتی تفصیلات کے مطابق مرتب کرکے ہر شہری کی رینکنگ کا تعین کیا جائے گا۔ چین میں گزشتہ سال ایسے سن گلاسز بھی سامنے آئے تھے جو چہرے شناخت کرنے کی ٹیکنالوجی سے لیس تھے جن کا مقصد جرائم پیشہ عناصر کو گرفتار کرنا تھا۔
ان سن گلاسز کی آزمائش مختلف ریلوے اسٹیشنوں میں کامیابی سے کی گئی اور ان کی مدد سے ہزاروں مسافروں کے چہرے اسکین کرکے جرائم پیشہ عناصر کو شناخت کیا گیا۔