الینوائے: (ویب ڈیسک) محققین نے کہا ہے کہ سمندر کی سطح پر آبی بخارات کی صورت میں موجود پینے کے قابل پانی کو حاصل کر کے دنیا میں سنگین ہوتے پانی کے مسئلے پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق امریکی یونیورسٹی آف الینوائے شیمپین نے اپنی تحقیق میں تجویز پیش کی کہ ایک ایسے انفرا اسٹرکچر میں سرمایہ کاری کی ضرورت ہے جو سمندر کی سطح پر آبی بخارات کو اکٹھا کرنے کے قابل ہو۔
تحقیق میں دنیا بھر کے 14 ایسے مقامات کا جائزہ لیا گیا جنہیں پانی کی قلت کا سامنا تھا، جائزے کا مقصد ایسے فرضی ڈھانچے کی تعمیر کا تخمینہ لگانا تھا جو سمندر کے اوپر سے بخارت جمع کر کے انہیں پینے کے قابل پانی میں ڈھالنے کے ساتھ موسمیاتی تغیر میں بھی کام جاری رکھ سکے۔
محققین کے مطابق ماضی کی فالتو پانی کی ری سائکلنگ، مصنوعی بارش اور پانی سے نمک نکال کر قابلِ استعمال بنانے (ڈی سیلینیشن) کی تراکیب کے سبب بہت محدود نتائج حاصل ہوئے ہیں، اگرچہ دنیا میں لگے کئی ڈی سیلینیش پلانٹس کو پائیداری کے مسائل کا سامنا ہے جس کی وجہ ان پلانٹس سے بننے والا نمکین اور بھاری دھاتوں سے بھرپور پانی کا فضلہ ہے۔
یونیورسٹی میں قائم پرائیر ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے ایگزیکٹیو پروفیسر پروین کمار کا کہنا ہے کہ ہمیں ایسے طریقہ کار کی ضرورت ہوگی جو ہمارے لیے پانی کی فراہمی کو بڑھائے، تجویز کردہ نیا طریقہ کار اس مقصد کو بڑے پیمانے پر پورا کر سکتا ہے۔