لاہور: (وقاص ریاض) جدید ٹیکنالوجی اور آئے روز ہونے والی نئی سائنسی ایجادات تیزی سے دنیا کو طلسماتی طور پر تبدیل کر رہی ہیں، ٹیکنالوجی کی دنیا میں تیزی سے ابھرتا ہوا شعبہ ’’نینو ٹیکنالوجی‘‘ بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔
’’نینو ٹیکنالوجی‘‘ اس وقت وقوع پذیر ہوئی جب معلوم ہوا کہ مادہ کی خصوصیات میں دلچسپ تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں، جب اس کے حجم کو اتنا کم کر دیا جائے کہ انسانی آنکھ اس کو نہ دیکھ سکے، مثال کے طور پر اگر ہم سونے کے ذرّات کو انتہائی باریک پیس کر انہیں نینو میٹر کے سکیل تک کر دیں تو سونے کا رنگ تبدیل ہو جائے گا، یہ رنگت ذرات کے حجم پر منحصر ہے۔
نینو ٹیکنالوجی کا اطلاق سائنس کے تمام شعبوں میں ہو رہا ہے، جن میں بائیو میڈیکل، کیمیا، مکینیکل مادی سائنس، نینو اسکیل سینسرز اور آلات شامل ہیں، اِنہیں نقل و حمل میں مدد کیلئے بھی استعمال کیا جا رہا ہے تاکہ ڈرائیور کو سڑک پر اپنی جگہ برقرار رکھنے، تصادم اور رش سے بچنے میں مدد ملے۔
نینو سینسرز کے استعمال نے زراعت میں پانی، کھاد اور کیڑے مار ادویات کی ضرورت کو بہت کم کر دیا ہے، زراعت میں کیڑے مار ادویات کے استعمال کو بہتر بنانے کیلئے خصوصی نینو کیپسول تیار کئے گئے ہیں جن میں کیڑے مار ادویات شامل کی جاتی ہیں، یہ کیڑے مار ادویات صرف کیڑوں کے پیٹ میں جا کر خارج ہوتی ہیں، پودے اور انسان اُن ادویات کے مضر اثرات سے محفوظ رہتے ہیں۔
نینو ٹیکنالوجی کا استعمال پانی صاف کرنے، ادویات، برقیات، نئے مواد اور دیگر بہت سے شعبوں میں انتہائی مفید ثابت ہو رہا ہے، اِسی طرح نینو سیلولوز سے بنے بلٹ پروف کاغذ سے بلٹ پروف جیکٹس بھی تیار کی گئی ہیں، یہ جیکٹس ہلکی، جاذبِ نظر اور بلٹ پروف ہیں۔
تیز رفتار ترقی کا ایک اور دلچسپ شعبہ توانائی کا ہے، نئے اور زیادہ مؤثر شمسی خلیے تیار کئے جا رہے ہیں جو خصوصی رنگ سے تیار کئے گئے ہیں تاکہ جب بھی سورج کی روشنی اْن پر پڑے تو وہ بجلی پیدا کر سکیں، برقی موٹر گاڑیوں کو چلانے کیلئے نئی اور زیادہ کارآمد بیٹریوں پر تحقیق اِس شعبہ کی اولین ترجیح ہے، وہ ممالک جو اِن ایجادات کو صنعت اور کاروبار کے لئے استعمال کر رہے ہیں تیزی سے ترقی کر رہے ہیں۔
دلچسپ بات ہے کہ یہ حیاتیاتی ماڈلز پر مبنی کمپیوٹر سسٹم نئی اور ابھرتی ہوئی ایجادات میں سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی ٹیکنالوجی ہے جس میں 2016ء اور 2020ء کے درمیان 67 فیصد اضافہ ہوا ہے، گوگل، مائیکرو سافٹ اور انٹل(Intel) اِس شعبے میں سرِفہرست ہیں، مشین لرننگ، کوانٹم کمپیوٹنگ اور خود مختار ٹیکنالوجی میں بھی بڑی تیزی سے اضافہ دیکھا جا رہا ہے، اِن میں سے کچھ شعبوں کا پاکستان میں ہری پور ہزارہ میں ’’پاک آسٹریا جامعہ برائے اطلاقی سائنس و انجینئرنگ‘‘ کے قیام کے ساتھ آغاز کیا گیا ہے اور اِسی طرح کی ایک جامعہ اب سیالکوٹ میں بھی زیرِ تعمیر ہے۔
اِس کے علاوہ اِیسی ٹیکنالوجی بھی آ گئی ہے کہ مواد سے اشیاء کو ڈھانپ دیا جائے تو وہ نظر سے اوجھل ہو جاتی ہیں، ایسے آلات بھی تیار کر لئے گئے ہیں جو اعصابی نظام کے ذریعے دماغ میں خاکے منتقل کرتے ہیں جس سے نابینا افراد کی جزوی بینائی بحال کی جا سکتی ہے۔
اس کے علاوہ مصنوعی ذہانت بہت تیزی سے ترقی کر رہی ہے جو شہر کے نظامِ نقل و حمل سے منشیات کی دریافت تک، اسٹاک ایکسچینج، صحت اور ماحولیاتی مسائل کو اْجاگر کرنے تک متعدد شعبوں میں اپنا لوہا منوا رہی ہے، مصنوعی ذہانت اعصابی نیٹ ورک کے شعبے میں خاص پیش رفت کر رہی ہے اور انسانی دماغ پر مبنی دیگر تکنیکی عوامل پر اس کا اطلاق تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
مصنوعی ذہانت کے پاکستان میں بھی متعدد مراکز قائم کئے جا چکے ہیں جن میں NED کراچی، UET لاہور اور دیگر جامعات شامل ہیں، چین اور آسٹریا کی اعلیٰ جامعات کے تعاون سے پاک آسٹریا جامعہ ہری پور میں ’’سینو پاک مرکز برائے مصنوعی ذہانت‘‘ نے بھی کام شروع کر دیا ہے، اِس کے علاوہ پاکستان کا پہلا قومی مرکز برائے نینو ٹیکنالوجی جامعہ کراچی میں قائم کیا گیا ہے، اس طرز کے تعلیمی اداروں سے پاکستان میں موجود باصلاحیت نوجوانوں کو جدید دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کے مواقع حاصل ہوں گے۔
نینو ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت جس تیزی سے دنیا بھر میں پھیل رہی ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ مستقبل میں وہی ملک ترقی یافتہ کہلائیں گے جو ان ٹیکنالوجیز میں مہارت رکھتے ہوں گے۔
وقاص ریاض سرکاری یونیورسٹی کے شعبہ فزکس میں ریسرچر ہیں، ان کے تحقیقی مضامین ملک کے موقر جرائد میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔