لندن: (ویب ڈیسک) ڈبل ڈائمنڈ نامی ٹیکسل نسل کی اس بھیڑ کو دنیا کی مہنگی ترین بھیڑ کا اعزاز حاصل ہو گیا ہے۔ سکاٹ لینڈ میں لگنے والی بولی میں اس بھیڑ کو 3 لاکھ 68 ہزار پاؤنڈ ( تقریباً آٹھ کروڑ بائیس لاکھ روپے) کے عوض خریدا گیا ہے۔
چھ ماہ کی یہ بھیڑ بریڈنگ کے شعبے سے وابستہ چارلی بوڈن کی ملکیت تھی اور انہوں نے یہ ایک شیپ فارمرز کنسورشیم کو فروخت کی ہے۔ اسکاٹش نیشنل ٹیکسل سیل میں اس بھیڑ کی بولی کا آغاز دس ہزار پاؤنڈ میں ہوا لیکن وہاں موجود متعدد پارٹیاں ایک دوسرے سے بڑھ کر بولی لگاتی رہیں اور اس بھیڑ کی قیمت بڑھتی گئی۔
ڈبل ڈائمنڈ نامی اس بھیڑ کو تین کسانوں کے ایک کنسورشیم نے خریدا ہے، جنہیں امید ہے کہ وہ اس بھیڑ سے مزید بھیڑوں کی بریڈنگ کریں گے اور ان کی سرمایہ کاری منافع بخش کاروبار میں تبدیل ہو سکے گی۔ جیف ایکن ایک فارم منیجر ہیں اور وہ بھی خریداروں میں شامل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر بریڈنگ کی بات کی جائے تو پھر چھوٹی چھوٹی خصوصیات کو بھی دیکھنا پڑتا ہے، بال، رنگ، سر کی بناوٹ، سب کچھ۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ منفرد جینیات حاصل کرنے کے لیے ہمیں اتنی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ فارمنگ سے منسلک افراد کو ان دنوں معاشی مسائل کا بھی سامنا ہے۔ بہت ہی کم ایسے فارمر ہوتے ہیں، جو اتنی زیادہ رقم ادا کرنے کی سکت رکھتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: جرمن یونیورسٹی’ کچھ نہ کرنے کے‘ بدلے تین لاکھ روپے دے گی
قبل ازیں اسی طرح 2009ء میں ایک بھیڑ دو لاکھ تیس ہزار پاؤنڈ میں فروخت ہوئی تھی لیکن اس مرتبہ وہ عالمی ریکارڈ بھی ٹوٹ گیا ہے۔ ٹیکسل نسل کی بھیڑیں ہالینڈ کے ایک چھوٹے سے جزیرے ٹیکسل سے تعلق رکھتی ہیں۔ ٹیکسل شیپ سوسائٹی کے مطابق بریڈنگ کے لیے عام طور پر ایک بھیڑ کی فروخت ہزاروں یورو یا لاکھوں روپے میں ہوتی ہے۔
ٹیکسل نسل کی بھیڑوں کا اصل اوریجن نامعلوم ہے لیکن گوشت کے حوالے سے انہیں بہترین قرار دیا جاتا ہے۔ ڈچ ٹیکسل بھیڑوں نے اپنے اعلیٰ معیار کی وجہ سے ستر کی دہائی میں انگلش بریڈرز کی توجہ حاصل کی تھی لیکن اس وقت قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے ان کی درآمد ممکن نہ ہو سکی تھی اور انگلش بریڈرز نے فرانسیسی بھیڑوں کی تجارت شروع کی۔ تاہم اسی عشرے کے اواخر میں برطانوی قوانین تبدیل ہوئے تو اس نسل کی بھیڑوں کی تجارت ممکن ہو سکی۔
یہ نسل برطانوی فوڈ مارکیٹ سے بہت مطابقت رکھتی ہے۔ یہ نہ صرف سخت موسم کو آسانی سے برداشت کر لیتی ہے بلکہ انتہائی مناسب وقت میں اس قدر بڑی ہو جاتی ہے کہ اسے برطانوی مذبح خانوں میں فروخت کرتے ہوئے منافع کمایا جا سکتا ہے۔