کراچی:(دنیا نیوز) کچھوؤں کا عالمی دن 16 جون کومنایا جائے گا، ماہرین نے ترقیاتی و صنعتی سرگرمیوں اور آلودگی کو سمندری کچھوؤں کے لیے بڑا خطرہ قرار دے دیا۔
پاکستان کے ساحلی مقامات پر کچھوؤں کو بہت سے انسانی خطرات کا سامنا ہے جن میں کچھوؤں کے مسکن تباہی، پلاسٹک کی آلودگی اور ماہی گیری کے آلات میں الجھنا شامل ہے، سندھ میں سینڈز سپٹ اور ہاکس بے جبکہ بلوچستان میں اورماڑہ کے ساحلوں کے ساتھ تعمیرات سے کچھوؤں کے افزائش نسل کے مقام متاثر ہو رہی ہیں۔
پلاسٹک کا فضلہ اور خستہ حال تعمیرات کا گرتا ملبہ مادہ کچھوؤں اور اس کے بچوں کے لیے سنگین خطرہ ہے، سمندری کچھوؤں کے مسکن سندھ کے ساحل کے ساتھ سینڈزسپٹ، ہاکس بے اور کیپ مونز اور بلوچستان کے ساحل کے ساتھ واقع جزیرہ استولا، گوادر میں پائے جاتے ہیں، ہزاروں کی تعداد میں مادہ کچھوے گھونسلے بنانے اور انڈے دینے کے لیے آتے ہیں۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف کے 2012 میں مرتب ڈیٹا میں ماہی گیر جالوں میں سالانہ 30,000 سمندری کچھوؤں کے پھنسنے کا انکشاف ہوا، جن میں 25,500 اولیو ریڈلے اور 4,500 سبز کچھوے شامل تھے، سمندری کچھوؤں کی حفاظت کے لیے ڈبلیو ڈبلیو ایف نے 100 ناخدا اور عملے کے ارکان کو کچھوؤں کی بحفاظت رہائی کی تربیت دی، تربیت کے بعد مچھلی کے جالوں میں الجھ کر کچھوؤں کی اموات میں 85 فیصد کمی واقع ہوئی۔
سینئر ڈائریکٹر تحفظ حیاتیاتی تنوع ڈبلیو ڈبلیو ایف رب نواز کے مطابق پاکستان میں کچھوؤں کے انڈوں کا غیر قانونی شکار رپورٹ کیا گیا ہے، کچھوؤں کے بچے بھی غیر قانونی طور پر ان کے افزائش نسل کے مقامات سے نکال کر ایکویریم کی دکانوں میں فروخت کیے جاتے ہیں، سندھ حکومت شکاریوں کے خلاف کارروائی کرتی ہے، لیکن یہ غیر قانونی تجارت اب بھی جاری ہے اور اسے روکنے کی ضرورت ہے۔