بابری مسجد کیس :فیصلے کو لارجر بینچ بھیجنے کی استدعا مسترد

Last Updated On 28 September,2018 02:52 pm

نئی دہلی( روزنامہ دنیا ) بھارتی سپریم کورٹ نے 1994 کے اس فیصلے پر نظرثانی کی اپیل مسترد کر دی جس میں قرار دیا گیا تھا کہ نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد کا ہونا ضروری نہیں۔


بھارتی اخبار کے مطابق بھارتی سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے دو، ایک کی اکثریت سے 1994 کے اسماعیل فاروقی کیس کی نظرثانی اپیل پر فیصلہ سنایا۔ بھارتی سپریم کورٹ نے 1994 کے فیصلے کو لارجر بینچ بھیجنے کی استدعا مسترد کردی اور الفاظ حذف نہ کئے ، جس سے عدالت کے لیے ایودھیا میں بابری مسجد اور رام مندر کے تنازع کا معاملہ سننا آسان ہوگیا۔

مسلم فریقین کا خیال تھا کہ مذکورہ رولنگ بابری مسجد کیس میں ان کے موقف پر اثرانداز ہو سکتی ہے اس لیے لارجر بینچ بنا کر اس پر نظر ثانی کی جائے۔ جسٹس اشوک بھوشن نے بھارتی چیف جسٹس دیپک مشرا اور اپنی طرف سے اکثریتی فیصلہ دیا جبکہ جسٹس عبدالنذیرنے اس فیصلے سے اختلاف کیا۔ عدالت کے جج جسٹس اشوک بھوشن نے کہا کہ مسجد کے حصول کے لیے درخواست دائر کرنے والوں کا دعویٰ فاروقی کیس میں محدود تناظر میں تھا، اس کا یہ مطلب نہیں کہ مسجد اسلامی تعلیمات کے لیے ضروری نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ کیس کا فیصلہ اس کے اپنے حقائق پر کیا جائے گا اور اسماعیل فاروقی فیصلے کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔ دوسری جانب بینچ سے مخالفت کرتے ہوئے جسٹس نذیر نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اسماعیل فاروق فیصلے پر مشکوک سوالات اٹھتے ہیں اور یہ فیصلہ بغیر کسی مشاہدے کے سامنے آیا یہ فیصلہ اصل ایودھیا تنازع کیس میں سرایت کرتا ہے لہذا اس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔

بھارتی عدالت کی جانب سے کہا گیا کہ ایودھیا کیس کی سماعت 29 اکتوبر کو ہوگی، واضح رہے کہ مسلمانوں کی تنظیم نے خصوصی بینچ کے سامنے اعتراض کیا تھا کہ 1994 میں دئیے گئے 5 رکنی بینچ کے فیصلے پر وسیع مشاہدے میں نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس سے بابری مسجد اور رام مندر کی زمین کے تنازع کیس پر اثر پڑے گا۔ درخواست گزار محمد صدیقی کے قانونی نمائندے سینئر ایڈووکیٹ راجیو دھاون نے عدالت میں کہا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے یہ رولنگ کہ مسجد اسلامی تعلیمات کے لیے ضروری نہیں ہے کسی تحقیق یا مذہبی معاملات کو دیکھے بغیر دی گئی۔

بھارتی سپریم کورٹ نے 1994 کے فیصلے پر نظرثانی کی اپیل لارجر بینچ کو بھیجنے کی اپیل مسترد کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ تمام مذاہب، مساجد، مندر اور گرجا گھر برابر ہیں۔ اگر ہم اس فیصلے کو دوبارہ دیکھیں گے تو اس سے ایودھیا تنازع کی سماعت میں تاخیر ہوسکتی ہے ، اگرچہ اس کا براہ راست اس پر کوئی اثر نہیں ہے ۔ادھر این ڈی ٹی وی کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ عدالتی فیصلے کا مطلب یہ ہے کہ ایودھیا میں بابری مسجد اور رام مندر کے تنازع کا کیس بغیر کسی تاخیر کے چل سکتا ہے۔

خیال رہے کہ 1994 کے عدالتی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ نماز کہیں بھی ادا کی جاسکتی ہے اور اس کے لیے مسجد کا ہونا ضروری نہیں ہے ۔عدالت کا یہ فیصلہ حکومت کے لیے 16 ویں صدی کی بابری مسجد کی زمین حاصل کرنے کے لیے ایک واضح راستہ تھا۔بابری مسجد کو انتہا پسند ہندوﺅں نے 25 برس قبل 6 دسمبر 1992 کوشہید کر دیا تھا جس کے نتیجے میں ہونے والے فسادات میں 2 ہزار لوگ مارے گئے تھے۔