بھارت میں نفرت انگیز جرائم میں تین گنا اضافہ ہو گیا

Last Updated On 04 October,2019 11:39 pm

لاہور: (علی مصطفیٰ) ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا نے ہوشربا انکشافات کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت میں نفرت انگیز جرائم میں تین گنا اضافہ ہو گیا ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا نے اپنی ویب سائٹ ’’ہالٹ دی ہیٹ‘‘ پر اعداد و شمار جاری کیے ہیں، 2019ء کے پہلے چھ ماہ کے اعداد و شمار کو آج جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ صرف 2019ء کے پہلے چھ ماہ کے دوران نفرت انگیز جرائم کے 181 واقعات پیش آئے جو گزشتہ ساڑھے تین سال کی نسبت دوگنا ہیں۔ یہ اعداد و شمار بہت خوفناک ہیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کے آکار پٹیل کا کہنا ہے کہ آج بھارت میں لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، جن لوگوں پر تشدد کیا جا رہا ہے، ان پر تشدد بنانے کی بڑی وجہ ان کا مذہب، ان کی ذات اور صنف ہے۔ ملکی تعزیراتی قوانین کے لیے ضروری ہے کہ پہلے اس طرح کے جرائم کے کمیشن کے پیچھے ہونے والے تعصب کو تسلیم کرے۔

یاد رہے کہ نفرت انگیز جرائم کے بارے میں عوامی طور پر دستیاب الگ الگ ڈیٹا کی عدم موجودگی کے بعد ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی ایک ویب سائٹ ’’ہالٹ دی ہیٹ‘‘ 4 سال قبل 2015ء میں بنائی ہے۔

 

ویب سائٹ کو بنانے کے عزم کا اظہار اس وقت کیا گیا جب ریاست اتر پردیش کے علاقے دادری میں 52 سالہ بزرگ مسلمان محمد اخلاق کو قتل کیا گیا، ن کو قتل کرنے کی بڑی وجہ بتائی گئی کہ خدشہ ہے انہوں نے گائے کا گوشت کھایا تھا۔ بھارت میں ہندی اور انگلش میڈیا نے اس خبر کو اجاگر بھی کیا۔

ویب سائٹ ’’ہالٹ دی ہیٹ‘‘ نے ستمبر 2015ء سے لیکر جون 2019ء کے درمیان 902 کے نفرت انگیز جرائم پر مبنی کیس رپورٹ کیے۔ رواں سال 2019ء کے پہلے چھ ماہ کے دوران 181 کے قریب کیسز نوٹ کیے گئے، 37 کے قریب متاثرہ افراد زندگی کی بازی ہار گئے۔

جنوری سے جون 2019ء کے درمیان دو تہائی واقعات میں دلت کمیونٹی شامل ہے جنہیں ہندو نچلی ذات کے لوگ سمجھتے ہیں، 40 کے قریب مسلمان تھے، 12 کے قریب بھارتی قبائل کے لوگ تھے، 4 کا تعلق عیسائی کمیونٹی سے تھا۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کے مطابق دلتوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم میں سے کچھ عوامی املاک جیسے سڑکیں، پانی، شمشان خانہ، سکولوں تک رسائی سے انکار سے متعلق ہے، 17 مقدمات میں گائے چوکسی سے متعلق نفرت انگیز جرائم اور غیرت کے نام پر قتل کی اطلاع ملی ہے۔

ویب سائٹ کے مطابق کچھ لوگوں کو شناخت ظاہر کرنے پر نشانہ بنایا گیا جبکہ 58 کے قریب نفرت انگیز جرائم کا تعلق خواتین سے ہے جنہوں نے اپنے آپ کو دلت، مسلمان، عیسائی، قبائلی اور ہم جنس پرست کے طور پر ظاہر کرایا۔ 30 کے قریب خواتین ریپ کا نشانہ بن گئیں۔

 

فروری میں ہونے والے پلوامہ واقعہ کے دوران جس میں 42 کے قریب بھارتی فوجیوں کو ایک کشمیری نوجوان نے خود کش دھماکے میں ہلاک کر دیا تھا جبکہ اس واقعہ میں 14 کے قریب زخمی ہو گئے تھے، اسکے بعد نفرت انگیز جرائم کی تعداد میں مزید اضافہ دیکھا گیا، صرف فروری کے مہینے میں 37 نفرت انگیز واقعات رپورٹ کیے گئے۔ مارچ 2019ء میں یہ واقعات 36 تھے۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ ہجوم کی طرف سے تشدد کے 72 کے قریب نفرت انگیز واقعات سامنے آئے جن کا براہ راست تعلق مسلمانوں کے ساتھ تھا۔ ان واقعات میں ایک چیز نوٹ کی گئی کہ مسلمانوں کو جبر اور زبردستی کہا گیا کہ ’’جے سری رام‘، ’’جے ہنومان‘‘، پاکستان مخالف نعرے لگاؤ۔ 5 واقعات میں متاثرہ افراد کو موت کے گھاٹ اُتارا گیا۔

ستمبر 2015ء کے بعد جب بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے اترپردیش، گجرات، راجستھان، ہریانہ، تامل ناڈو میں سب سے زیادہ واقعات دیکھنے کو ملے۔ ان ریاستوں میں ستمبر 2015ء سے جون 2019ء تک 216 واقعات نوٹ کیے گئے۔ اترپردیش وہ واحد ریاست ہے جہاں اس طرح کے واقعات سب سے زیادہ سامنے آئے۔

اس موقع پر آکار پٹیل کا کہنا تھا کہ بھارت میں نفرت انگیز جرائم بڑھنے کی سب سے بڑی وجہ ملک میں قانون کا نہ ہونا ہے۔ اس طرح کے واقعات کو بڑھانے میں حکومت بھی عوام کی حوصلہ افزائی کرتی نظر آ رہی ہے۔

یاد رہے کہ 2016ء کے بعد بھارت کے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) نے بھی نفرت انگیز سمیت دیگر جرائم سے متعلق کوئی اعداد و شمار ابھی تک جاری نہیں کیے۔