نیو یارک: (ویب ڈیسک) چار امریکی سینیٹرز نے مقبوضہ کشمیر پر سیکرٹری سٹیٹ مائیک پومپیو کو خط لکھا ہے، مشہور سینیٹرز نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال اور شہریت کے ترمیم قانون پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ یہ خط ایسے وقت میں لکھا جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ رواں ماہ بھارت جانے والے ہیں۔
یہ خط دو ڈیموکریٹ ارکان پارلیمان کرس وین ہولین، ڈک ڈربن اور دو ریپبلکنز لنڈسے گراہم، اور ٹوڈ ینگ نے مشترکہ طور پر لکھا ہے۔ سینیٹر لنڈسےگراہم کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا قریبی ساتھی سمجھا جاتا ہے۔ خط میں کہا گيا ہے کہ مودی کے اقدام سے مذہبی اقلیتوں کے حقوق اور بھارت کے سیکولر کردار کو خطرہ لاحق ہوگيا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے نام مکتوب میں چار سرکردہ سینیٹرز نے کشمیر کی صورتحال اور متنازع شہریت ترمیمی ایکٹ پرگہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بھارت کا سیکولر کردار خطرے میں ہے۔ خط میں کشمیر کی صورتحال کو پریشان کن بتاتے ہوئے امریکی حکومت سے مطالبہ کیا گيا ہے کہ وہ آئندہ 30 روز کے اندر کشمیر اور شہریت سے متعلق نئے قانون کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لے کر اس پر اپنی رپورٹ تیار کرے۔
یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں امن کیلئے مداخلت کریں: امریکی سینیٹرز کا ٹرمپ کو خط
بھارت نے 5 اگست 2019ء کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد سے پوری وادی کو جیل میں تبدیل کر کے ہند نواز رہنماؤں سمیت حریت رہنماؤں کو بھی گرفتار کر رکھا ہے۔
ترک میڈیا کے مطابق خط میں کہا گيا ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے یکطرفہ طور پر جموں و کشمیر کی خودمختاری ختم کیے جانے کے بعد، وہاں چھ ماہ سے بھی زیادہ وقفے سے بیشترعلاقوں میں انٹرنیٹ پر پابندی جاری ہے۔ جمہوریت میں بھارت کی جانب سے انٹرنیٹ پر پابندی کی یہ سب سے طویل دورانیہ ہے جس سے 70 لاکھ لوگوں کی طبی سہولیات، ان کاروبار اور تعلیم بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ کئی بڑے سیاسی رہنماؤں سمیت سینکڑوں کشمیری اب بھی احتیاطی حراست میں ہیں۔
خط میں سینیٹرز نے امریکی وزیر خارجہ سے مطالبہ کیا ہے کہ کشمیر میں مجموعی طور پرگرفتار کیےگئے افراد کی تعداد، دوران حراست ان پر تشدد یا پھر ان کے ساتھ نازیبا سلوک جیسے امور کا تجزیہ کرے۔ کشمیر میں موبائل اور انٹرنیٹ پر پابندی اور بیرونی سفارتکاروں، صحافیوں اور مبصرین پر کس طرح کی پابندیاں عائد کی گئی ہیں اور کشمیر میں مذہبی آزادی کی صورت حال کیا ہے، ان پہلوؤں پر بھی تجزیہ پیش کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
خط میں شہریت ترمیمی ایکٹ اور این آر سی پر بھی گہرے خدشات و شبہات کا اظہار کیا گيا ہے اور امریکی انتظامیہ سے اس کا بھی جائزہ لینے کو کہا گيا ہے کہ متنازع شہریت سے متعلق قانون کے نفاذ سے خاص طور پر مذہبی اور نسلی اقلیتوں میں سے کتنی بڑی تعداد میں لوگ متاثر ہوں گے۔ جو لوگ اس قانون کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں کیا ان کے خلاف بھارتی حکام کی جانب سے طاقت کا بےجا استعمال کیا گيا ہے؟ نیشنل رجسٹر فار سٹیزن (این آر سی) کے نفاذ سے کتنے لوگوں کے شہریت سے محروم ہونے خطرہ ہے؟
سینیٹرز نے لکھا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے انتخابات میں کامیابی کے بعد اقتدار سنبھالتے ہی ہندو قوم پرستی کے ایجنڈے پر تیزی سے کام کیا ہے۔ اس سے لوگوں میں اس بات کے لیے بےچینی پیدا ہوئی ہے کہ بھارت کا بطور ایک سیکولر جمہوریت کردار خطرے میں ہے۔