تہران: (ویب ڈیسک) ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دھمکیوں کے بعد جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہم کبھی جنگ کا آغاز نہیں کرتے بلکہ ایسا کرنے والوں کو سبق ضرور سکھاتے ہیں۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے صدر ٹرمپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا جھوٹ بولتا ہے، دھوکا دیتا ہے اور ایرانیوں کے قتل میں ملوث ہے۔ ایران نے کبھی جنگ کی ابتدا نہیں کی البتہ اپنا دفاع ضرور کیا ہے
صدر ٹرمپ کے ایران پر ’پراکسی وار‘ کے الزام کے جواب میں وزیر خارجہ جواد ظریف کا کہنا تھا کہ جنگ کے شعلوں کو ہوا دینے کی باتیں نہ کریں، ایران کی عراق سمیت دنیا کے کسی بھی حصے میں پراکسی یا حامی قوتیں نہیں البتہ دوست ضرور ہیں
Don’t be mislead by usual warmongers, AGAIN, @realDonaldTrump:
— Javad Zarif (@JZarif) April 2, 2020
Iran has FRIENDS: No one can have MILLIONS of"proxies"
Unlike the US—which surreptitiously lies, cheats & assassinates—Iran only acts in self-defense. Openly
Iran starts no wars, but teaches lessons to those who do
اس سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کو دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ عراق میں اگر ہماری فوج پر حملہ ہوا تو تہران کو بہت بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ٹویٹ کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کو دھمکی دی اورکہا کہ عراق میں موجود امریکی افواج پر حملہ کیا گیا تو اس کا بھرپور جواب دینگے اس کی ایران کو بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔
ٹرمپ نے ٹویٹ میں مزید لکھا کہ معلومات اور اندازے کے مطابق ایران یا اسکے اتحادی امریکی افواج پر حملے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔
Upon information and belief, Iran or its proxies are planning a sneak attack on U.S. troops and/or assets in Iraq. If this happens, Iran will pay a very heavy price, indeed!
— Donald J. Trump (@realDonaldTrump) April 1, 2020
’الجزیرہ‘ کے مطابق ایران نے عراق میں امریکی پیٹریاٹ میزائلوں کی کھیپ عین الاسد کے فوجی اڈے پر تعینات کرنے پر امریکا کو دھمکی دی تھی۔
خبر رساں ادارے کے مطابق ایران کا کہنا ہے کہ مشرق وسطیٰ کورونا وائرس کی وباء سے لڑ رہا ہے اور امریکا اس کی آڑ میں عراق پر مہلک ہتھیار نصب کر رہا ہے۔ یہ اقدام عراقی پارلیمنٹ اور قوم کی توہین کے برابر ہے۔ اس اقدام سے خطے میں عدم استحکام کی صورتحال پیدا ہو گی۔
وزارت خارجہ حکام کا کہنا تھا کہ امریکا کو عراقی عوام کی خواہشات کا احترام کرنا ہو گا اس لیے جتنا جلدی ہو سکے امریکا عراق سے اپنی فوج کو نکال لے۔
یاد رہے کہ اس سے قبل عراق میں بین الاقوامی عسکری اتحاد میں شامل امریکی فوج نے پیر کے روز فضائی دفاعی نظام سے متعلق "پیٹریاٹ" میزائلوں کی کھیپ تعینات کر دی تھی۔ یہ پیشرفت امریکی فورسز پر بیلسٹک میزائلوں کے حملے کے دو ماہ بعد سامنے آئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: عراق میں امریکی فوج پر حملہ ہوا تو ایران کو بہت بھاری قیمت چکانا پڑے گی: ٹرمپ
اس سلسلے میں ایک میزائل بیٹری گزشتہ ہفتے "عين الاسد" کے فوجی اڈے پہنچی جہاں امریکی فوجی تعینات ہیں۔ عراقی اور امریکی عہدے داران کا کہنا ہے کہ مذکورہ بیٹری کو نصب کیا جا رہا ہے۔
ایک امریکی عسکری عہدے دار نے انکشاف کیا ہے کہ ایک اور میزائل بیٹری عراقی کردستان کے دارالحکومت اربیل میں "حرير" کے فوجی اڈے پہنچی ہے۔ اس کے علاوہ دو دیگر میزائل بیٹریاں ابھی تک کویت میں موجود ہیں جن کو عراق منتقل کیا جانا ہے۔
ذرائع نے واضح کیا ہے کہ اعلی سطح کے عراقی ذمے داران نے امریکی مرکزی کمان کے کمانڈر جنرل کینیتھ میکنزی سے رواں سال فروری میں ہونے والی ملاقات کے دوران کہا تھا کہ امریکی حکومت عراق میں دفاعی میزائل تعینات کرنے کے ساتھ وہاں اپنے فوجیوں کی تعداد میں کمی لا کر بغداد حکومت کو سپورٹ فراہم کر سکتی ہے۔
واضح رہے کہ امریکا کے زیر قیادت بین الاقوامی عسکری اتحاد نے گذشتہ چند ہفتوں کے دوران کئی عسکری اڈوں سے اپنے فوجی اہل کاروں کو ہٹا لیا۔
یاد رہے کہ عراق میں نگراں حکومت کے سربراہ عادل عبدالمہدی نے پیر کے روز غیر اجازت یافتہ حربی کارروائیوں کے نتائج سے خبردار کیا تھا۔
اُن کے مطابق یہ کارروائیاں عراق کے شہریوں کی سیکورٹی کے لیے خطرہ اور ملکی خود مختاری کی خلاف ورزی ہے۔
عبدالمہدی کا کہنا تھا کہ بعض عناصر کی جانب سے عراقی فوجی اڈوں یا غیر ملکی نمائندگی کو نشانہ بنانے کی غیر ذمے دارانہ اور غیر قانونی کارروائیاں، عراق کی خود مختاری کو نشانہ بنانا اور حکومتی اور عوامی سطح پر عراقی ریاست سے تجاوز کرنا ہے۔
بیان میں ان کارروائیوں کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے کہا گیا کہ ان کارروائیوں کے مرتکب عناصر کے تعاقب اور ان کو روکنے کے لیے تمام تر ممکنہ اقدامات کیے جا رہے ہیں، اس وقت تمام تر کوششیں داعش کے خلاف نبرد آزما ہونے، امن و استحکام کو یقینی بنانے اور اس وبا کی روک تھام کے لیے صرف ہونی چاہئیں جو پوری انسانیت کے لیے خطرہ بن چکی ہے۔
یاد رہے کہ گذشتہ بدھ کی شام بغداد کے سخت پہرے والے حساس ترین علاقے گرین زون میں دو کیٹوشیا راکٹس گرے تھے۔ تاہم اس کے نتیجے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ گرین زون میں سرکاری عمارتیں اور غیر ملکی مشنز شامل ہوتے ہیں۔ یہ علاقے کو نشانہ بنائے جانے کی تازہ ترین کارروائی تھی۔