واشنگٹن: (ویب ڈیسک) امریکا نے افغانستان کے صوبے ہرات میں افغان ایئر فورس کی فضائی کارروائی میں 45 افراد کی ہلاکت کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے جبکہ اس واقعے کی تحقیقات کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
امریکا کے افغانستان کے لیے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے کہا ہے کہ افغانستان میں گزشتہ 24 گھنٹے انتہائی پرتشدد رہے اور اس دوران کئی افراد ہلاک ہوئے۔ مزید قبریں امن مذاکرات کو آگے لیکر نہیں جائینگی۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر متعدد ٹوئٹس میں خلیل زاد نے لکھا کہ افغان صوبے ہرات میں حکومتی فورسز کی فضائی کارروائی میں کئی عام شہری ہلاک ہوئے ہیں جن میں بچے بھی شامل تھے۔
1/4 The last 24 hours have been very violent in Afghanistan with many losing their lives.
— U.S. Special Representative Zalmay Khalilzad (@US4AfghanPeace) July 22, 2020
In Herat, photos and eyewitness accounts suggest many civilians including children are among the victims of an Afghan airstrike. We condemn the attack and support an investigation.
2/4 Similarly, we deplore the recent Taliban attacks in which many Afghans have lost their lives.
— U.S. Special Representative Zalmay Khalilzad (@US4AfghanPeace) July 22, 2020
4/4 Rather than setting the process back, we urge all sides to contain the violence, protect civilians, and show necessary restraint as the start of intra-Afghan negotiations is so close.
— U.S. Special Representative Zalmay Khalilzad (@US4AfghanPeace) July 22, 2020
ان کا کہنا تھا کہ ہلاکتوں کی تصدیق جائے واقعہ کی منظرِ عام پر آنے والی تصاویر اور عینی شاہدین کے بیانات سے بھی ہوتی ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز افغانستان کی ایئر فورس نے ہرات میں فضائی کارروائی کی تھی جس میں اطلاعات کے مطابق کم از کم 45 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ افغان حکام کا دعویٰ ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں طالبان کے اہم کمانڈر شامل ہیں۔
مشرقی صوبے ہرات کے ضلع ادرسکان کے گورنر علی احمد فقیر یار نے برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز سے گفتگو میں فضائی کارروائی کی تصدیق کی ہے جس میں انکے بقول 45 افراد ہلاک ہوئے۔ ضلعی گورنر کے مطابق مرنے والوں میں طالبان جنگجو بھی شامل ہیں۔
ضلعی گورنر کا کہنا ہے کہ حملے میں اب تک 8 عام شہریوں کی ہلاکت کی تصدیق ہوئی ہے لیکن تاحال یہ واضح نہیں کہ ہلاک ہونے والے دیگر 37 افراد میں طالبان کے جنگجو کتنے ہیں۔
خبر رساں ادارے کے مطابق افغان وزارتِ دفاع کا کہنا ہے کہ وہ عام شہریوں کی ہلاکت کے الزامات کی تحقیقات کر رہی ہے۔ وزارتِ تحقیقات کے نتائج عوام اور شہریوں کے سامنے لائے جائیں گے۔
مقامی حکام نے فضائی حملے میں ہلاکتوں کے ساتھ بڑی تعداد میں شہریوں کے زخمی ہونے کی بھی تصدیق کی ہے۔
امریکی افغانستان میں تعینات فوج کے ترجمان نے کہا ہے کہ امریکی فوج اس فضائی کارروائی میں شریک نہیں تھی۔
امریکی ایلچی زلمے خلیل زاد نے حملے کی مذمت کرتے ہوئے اس کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ طالبان کے حالیہ حملوں میں افغان شہریوں کی ہلاکت پر بھی افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔
زلمے خلیل زاد نے کہا کہ افغانستان کے عوام فوری طور پر امن مذاکرات کے آغاز کے خواہاں ہیں جبکہ افغان تصفیے کا پر امن حل ہی عوام کے بہترین مفاد میں ہے۔ مزید قبریں مذاکرات کو آگے لے کر نہیں جائیں گی۔
امریکی نمائندۂ خصوصی نے کہا کہ بین الافغان مذاکرات اب بہت قریب ہیں اس لیے فریقین تشدد میں کمی لائیں جبکہ عام شہریوں کی حفاظت کو یقینی بناتے ہوئے تحمل کا مظاہرہ کیا جائے۔
رائٹرز کے مطابق طالبان کے ترجمان قاری محمد یوسف احمد نے دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ افغان فورسز نے ہرات میں دو بار فضائی حملے کیے جس میں کئی افراد ہلاک اور زخمی ہوئے۔ مقامی حکام نے بھی فورسز کی دو بار فضائی کارروائی کرنے کی تصدیق کی ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے کے مطابق افغانستان کے قائم مقام وزیرِ دفاع اسد اللہ خالد نے اجلاس میں دعویٰ کیا ہے کہ وزارتِ دفاع کے پاس ایسی ویڈیو موجود ہے جس میں واضح نظر آ رہا ہے کہ طالبان اس مقام پر موجود ہیں۔
دوسری جانب طالبان کے ترجمان قاری محمد یوسف احمد نے دعویٰ کیا ہے کہ حملے کے مقام پر وہ طالبان موجود تھے جو حالیہ دنوں میں افغانستان کی جیلوں سے رہا ہوئے تھے۔
ہرات کے گورنر کے جیلانی فرہاد نے بتایا ہے کہ اطلاعات سے واضح ہوتا ہے کہ کئی نامی گرامی طالبان کمانڈر اس مقام پر موجود تھے۔ یہ کمانڈر سرکاری املاک پر حملوں کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔
حملے میں زخمی ہونے والے محمد امین نامی شخص نے بتایا کہ افغان ایئر فورس نے جس مقام کو نشانہ بنایا وہاں شادی کی تقریب جاری تھی جس میں وہ بطور مہمان شریک تھے۔
دوسری جانب افغانستان کے انسانی حقوق کے آزاد کمیشن نے بھی کہا ہے کہ ہرات میں ہونے والے حملے میں عام شہریوں کی ہلاکتوں کی جانچ پڑتال کی جا رہی ہے۔
واضح رہے کہ رواں برس فروری میں امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدے میں اتحادی افواج کے انخلا اور طالبان کے امن و امان قائم رکھنے اک معاہدہ ہوا تھا۔
معاہدے کے تحت امریکا کے انخلا سے قبل بین الافغان مذاکرات شروع ہونے تھے تاہم مذاکرات سے قبل فریقین نے ایک دوسرے کے قیدیوں کو رہا کرنا تھا۔
افغان حکام نے طالبان قیدیوں کی رہائی کے ساتھ یہ شرط عائد کی تھی کہ رہا کیے جانے والے قیدی دوبارہ عسکریت پسندی یا جرائم نہیں کریں گے۔ افغان عہدے دار یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ اب تک تقریباً 4400 طالبان کو چھوڑ چکے ہیں۔
حکام باقی 600 قیدیوں کو یہ کہتے ہوئے رہا کرنے سے انکار کر رہے ہیں انہیں آزاد کرنا انتہائی خطرناک ہو گا اور کئی غیر ملکی حکومتوں کا بھی اصرار ہے کہ انہیں جیلوں میں ہی رکھا جائے۔
طالبان کا کہنا ہے کہ وہ 845 افغان فوجیوں کو پہلے ہی رہا کر چکے ہیں اور باقی قیدیوں کی رہائی کے لیے کام کر رہے ہیں۔ طالبان نے تمام 5000 طالبان قیدیوں کی رہائی تک بین الافغان امن مذاکرات میں حصہ لینے کو خارج از امکان قرار دے دیا ہے۔
افغانستان کے قومی سلامتی کے مشیر حمد اللہ محب نے طالبان سے کہا ہے کہ وہ اپنے ملک میں واپس آئیں اور غیر ملکی خفیہ اداروں کے لیے کام کرنا چھوڑ دیں۔