واشنگنٹن: (ویب ڈیسک) امریکی صدارتی الیکشن ڈیموکریٹک پارٹی کے جوبائیڈن نے جیت لیا۔ جبکہ کملا ہیرس امریکی نائب صدر منتخب ہو گئیں۔
امریکی نشریاتی اداروں سی این این، این بی سی نیوز اور سی بی ایس نیوز نے بھی اپنی رپورٹس میں کہا کہ فیصلہ کن ریاست پنسلوینیا میں کامیابی کے بعد جو بائیڈن انتخاب میں فاتح قرار پائے ہیں۔
JOE BIDEN DEFEATS PRESIDENT DONALD TRUMP
— The Associated Press (@AP) November 7, 2020
The Associated Press declares Joe Biden the winner of a grueling campaign for the American presidency. He will lead a polarized nation through a historic collision of health, economic and social crises. #APracecall pic.twitter.com/lInwqjX3PB
امریکی میڈیا کے مطابق 77 سالہ جوبائیڈن امریکی تاریخ کے معمر ترین صدر ہوں گے۔ انہوں نے 74 سالہ ڈونلڈ ٹرمپ کو شکست دی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا کے صدارتی امیدوار جوبائیڈن پاکستان سے بخوبی واقف، کئی دورے کر چکے
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق انھوں نے صدارت کے لیے مقررہ 270 الیکٹورل کالج کا ہدف 290 الیکٹورل کالج ووٹس لے کر حاصل کر لیا ہے۔
اے ایف پی کے مطابق جوبائیڈن نے سابق صدر باراک اوباما کے صدر 8 سال تک بطورِ نائب صدر فرائض انجام دیئے۔
برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی صدارتی انتخاب کی تاریخ میں ویسے تو یہ دس مرتبہ ہو چکا ہے کہ کوئی صدر اپنے پہلی مدتِ صدارت کے بعد ہی ہار گئے لیکن حالیہ دور میں ایسا چوتھی مرتبہ ہوا ہے کہ کوئی امریکی صدر پہلی مدتِ صدارت کے بعد ہی ہار گئے ہیں۔ صدر ٹرمپ مجموعی طور پر 11ویں اور حالیہ دور میں چوتھے ایسے صدر بن گئے ہیں۔ اس سے قبل ایسا 1992 میں ہوا تھا جب بل کلنٹن نے جارج ایچ ڈبلیو بش (سینیئر) کو پہلی مدتِ صدارت کے بعد شکست دی تھی۔
منتخب ہونے والے امریکی صدر جوبائیڈن نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر لکھا کہ امریکیو یہ میرے لیے اعزاز کی بات ہے کہ آپ لوگوں نے مجھے ملک کی خدمت کے لیے چنا۔
America, I’m honored that you have chosen me to lead our great country.
— Joe Biden (@JoeBiden) November 7, 2020
The work ahead of us will be hard, but I promise you this: I will be a President for all Americans — whether you voted for me or not.
I will keep the faith that you have placed in me. pic.twitter.com/moA9qhmjn8
انہوں نے مزید لکھا کہ آگے کا سفر تھوڑا مشکل ہے لیکن سبھی امریکیوں کا صدر بن کر دکھاؤں گا، چاہے اس کے لیے مجھے کسی نے ووٹ دیے ہوں یا نہیں۔ میں آپ کے بھروسے پر پورا اُتروں گا۔
دوسری طرف امریکی نائب صدر کے لیے منتخب ہونے کملا ہیرس نے لکھا کہ جوبائیڈن ہم نے کر دکھایا۔
We did it, @JoeBiden. pic.twitter.com/oCgeylsjB4
— Kamala Harris (@KamalaHarris) November 7, 2020
منگل کی شام پولنگ کا وقت ختم ہونے کے بعد امریکیوں کی نظریں ٹی وی اسکرین اور موبائل فونز پر جمی ہوئی تھیں اور دنیا بھر میں نئے امریکی صدر کے اعلان کا انتظار کیا جارہا تھا۔
جو بائیڈن نے اہم ریاستوں وسکونسِن اور مشی گن میں کامیابی حاصل کرکے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کے امکانات کم کر دیے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا کے 46 ویں صدر جوبائیڈن کی زندگی پر ایک نظر
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکی میڈیا کی طرف سے فتح کے اعلان کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ جوبائیڈن کی فتح کے اعلانات بے بنیاد ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ جوبائیڈن اپنی فتح کے جھوٹے دعوے کر رہے ہیں اور اس کے لیے ان کے حامی میڈیا ان کی مدد کے لیے پوری کوشش کر رہا ہے، جو نہیں چاہتے کہ حقیقت سامنے آئے اور الیکشن ابھی ختم نہیں ہوا۔
ٹرمپ نے نے ٹوئٹر پر پیغام میں کہا کہ منگل کو الیکشن والے دن رات آٹھ بجے کے بعد ہزاروں ووٹ غیرقانونی طور پر وصول کیے گئے۔
صدر کا کہنا تھا کہ انہی ووٹوں نے ان کی اہلیت کو نااہلی میں بدل دیا۔ پنسلوینیا میں ٹریکٹرز کے ذریعے ووٹوں کی گنتی کا عمل چھپا دیا گیا، جنہوں نے صدر کے مطابق دروازے اور کھڑکیاں بلاک کر دیں، انہیں موٹے گتے کی مدد سے ڈھانپ دیا گیا تاکہ دیکھنے والے ان کمروں میں نہ جھانک سکیں جہاں ووٹ کی گنتی کی جا رہی تھی۔ اندر غلط کام ہوئے۔ تبدیلیاں ہوئیں۔
یہ بھی پڑھیں: جوبائیڈن کی ممکنہ فتح کے امکانات، وی وی آئی پی سکیورٹی دیدی گئی
جو بائیڈن امریکی تاریخ میں کسی بھی امریکی صدارتی امیدوار سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے شخص بن گئے ہیں۔
یاد رہے کہ یہ امریکی انتخاب انتہائی غیر معمولی نوعیت کے تھے اور اس مرتبہ ووٹر ٹرن آؤٹ بھی انتہائی زیادہ رہا ہے۔ بائیڈن کو اب تک سات کروڑ سے زیادہ ووٹ حاصل ہو چکے ہیں اور وہ اس سے براک اوباما کے ریکارڈ چھ کروڑ 94 لاکھ ووٹروں کو پچھے چھوڑ چکے ہیں۔
دریں اثناء امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے حامیوں سے رسمی الیکشن دفاعی فنڈ میں حصہ لینے کی درخواست کی ہے کیونکہ ان کی فتح کے راستے میں جو بائیڈن بڑی رکاوٹ بن چکے ہیں۔
وال سٹریٹ جرنل کے مطابق ٹرمپ کی مہم اور رپبلکن نیشنل کمیٹی دونوں نے ووٹنگ ڈے کے بعد اپنی فہرستوں میں موجود ڈونرز کو ٹیکسٹ اور ای میل کرنا شروع کر دیا ہے کہ ہمیں لازمی طور پر الیکشن کو بچانا ہوگا۔
دوسری اپیلیں امریکی صدر کے بیٹے ٹرمپ جونیئرکے نام سے کی گئیں جن میں انہوں نے بظاہر درخواست کی میرے والد آپ سے کہہ رہے ہیں کہ ہمارے اہم الیکشن دفاع فنڈ کو سہارا دینے میں مدد کریں۔
یہ بھی پڑھیں: نئی تاریخ رقم، امریکا میں دو خواجہ سرائوں نے سینیٹ الیکشن میں کامیابی حاصل کر لی
بائیڈن نے ریاست ڈیلاویئر میں مختصر بات کرتے ہوئے اپنے حامیوں کو بتایا کہ ہم جیت کی طرف جا رہے ہیں۔ انہوں نے رپبلکن پارٹی کی حامی سمجھی والی ریاستوں مشی گن، وسکونسن اور پینسلوینیا میں کامیابی حاصل کی جہاں وہ 300 سے زیادہ الیکٹوریل کالج ووٹ حاصل کرنے کی جانب بڑھ رہے تھے۔
بائیڈن نے کہا کہ اعدادوشمار ہمیں صاف اور قائل کرنے کی صلاحیت رکھنے والی کہانی سنا رہے ہیں۔ ہم یہ دوڑ جیتنے جا رہے ہیں۔
جو بائیڈن کون ہیں؟
ریاست پنسلوانیا کے شہر اسکرینٹن میں پیدا ہونے والے جو بائیڈن نے سیاست کا آغاز 1972 میں ریاست ڈلاوئیر سے سینیٹ کے انتخابات میں کامیابی کے ساتھ کیا۔
انہیں خارجہ پالیسی کا کافی تجربہ ہے اور وہ اپنے سیاسی کیریئر کے دوران سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کے دو بار چیئرمین رہے ہیں۔ جو بائیڈن نے عدالیہ سے متعلق کمیٹی کے چیئرپرسن کے طور پر بھی فرائض انجام دیے۔
ان کا یہ طویل کیریئر واضح طور پر داغ سے پاک نہیں ہے۔ انہیں 1994 کے پرتشدد جرائم کنٹرول کرنے اور قانون کے نفاذ سے متعلق قانون کی حمایت پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور ناقدین کہتے ہیں کہ یہ قانون بڑے پیمانے پر افریقی امریکیوں کو قید کیے جانے کی وجہ بنا۔
جو بائیڈن کو اپنی زندگی میں کئی دکھوں اور المیہ سے گزرنا پڑا۔ سال 1972 میں عین ان دنوں میں جب وہ سینیٹ کی رکنیت کا حلف اٹھانے والے تھے، ان کی بیوی اور تین بچے کار حادثے کا شکار ہوئے جس میں ان کی اہلیہ اور بیٹی ہلاک ہوگئے جبکہ دونوں بیٹے بیو اور ہنٹر شدید زخمی حالت میں ہسپتال لائے گئے، جو بائیڈن حلف اٹھائے بغیر ہسپتال روانہ ہوئے اور بعد ازاں وہیں سے سینیٹ کی رکنیت کا حلف اٹھایا۔
یہ بھی پڑھیں: امریکی الیکشن: ریاست مشی گن سے جوبائیڈن کی جیت میں مسلمانوں کا اہم کردار
سال 2015 میں جب جو بائیڈن امریکا کے نائب صدر تھے، ان کے 46 سالہ بیٹے بیو بائیڈن کی دماغ میں کینسر کی وجہ سے موت ہو گئی۔
جو بائیڈن نے صدر کے لیے پہلی 1988 میں انتخاب میں حصہ لیا لیکن برطانیہ کی لیبر پارٹی کے رہنما نیل کینوک کی تقریر چوری کرنے کے انکشاف کے بعد وہ دوڑ سے دستبردار ہوگئے۔
انہوں نے 2008 میں ایک بار پھر اپنی قسمت آزمائی لیکن اس بار بھی ناکام رہے اور ڈیموکریٹک پارٹی نے براک اوباما کو صدر کے لیے نامزد کیا۔ جو بائیڈن کو بعد ازاں نائب صدر کے لیے نامزد کیا گیا اور اوباما کے ساتھ اگلے 8 سال تک خدمات انجام دیں۔
بائیڈن، جو ڈونلڈ ٹرمپ کے ’پہلے امریکا‘ کے نعرے کا ’تنہا امریکا‘ کہہ کر مذاق اڑاتے ہیں، بطور عالمی رہنما ملک کی پوزیشن بحال کرانے کے لیے پرعزم ہیں۔
کملا ہیرس کون ہیں؟
کملا اس سے قبل ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار بننے کی دوڑ میں جو بائیڈن کے مخالف تھیں۔ کیلیفورنیا سے تعلق رکھنے والی سینیٹر کی والدہ انڈیا جبکہ والد جمیکا میں پیدا ہوئے تھے۔
کملا ہیرس کو ایک عرصے تک صدارتی امیدوار بننے کی دوڑ میں ایک مقبول امیدوار کے طور پر دیکھا جا رہا تھا۔
وہ ریاست کیلی فورنیا کی سابق اٹارنی جنرل بھی رہ چکی ہیں اور وہ نسلی تعصب کے خلاف ہونے والے مظاہروں کے دوران پولیس کے نظام میں اصلاحات کی بھی حامی رہی ہیں۔
کملا ہیرس شہر آکلینڈ میں دو تارکین وطن والدین کے ہاں پیدا ہوئیں۔ ان کی والدہ انڈیا جبکہ والد جمیکا میں پیدا ہوئے تھے۔
والدین کی طلاق کے بعد کملا ہیریس کی پرورش بنیادی طور پر ان کی ہندو سنگل والدہ شیاملا گوپالن ہیریس نے کی جو کہ کینسر کے شعبے میں محقق اور شہری حقوق کی سرگرم کارکن تھیں۔
وہ اپنے انڈین ثقافتی پس منظر میں پلی بڑھیں اور اپنی والدہ کے ساتھ وہ انڈیا کے دورے پر آتی رہتی تھیں لیکن ان کی والدہ نے پوری طرح آکلینڈ کی سیاہ فام ثقافت کو اپنا لیا تھا اور انھوں نے اپنی دو بیٹویں کملا اور ان کی چھوٹی بہن مایا کو اسی تہذیب و ثقافت میں رچا بسا دیا تھا۔