نیو یارک: (ویب ڈیسک) بلومبرگ کے مطابق حالیہ چند ہفتوں کے دوران چین کو ایرانی تیل کی ترسیل میں بڑی حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس پیش رفت کا مقصد تیل کی عالمی منڈی میں توازن برقرار رکھنے کے واسطے "اوپیک پلس" گروپ کی کوششوں کو نقصان پہنچانا ہے۔ اوپیک پلس گروپ میں تیل برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم "اوپیک" کے رکن ممالک اور تنطیم کے باہر تیل پیدا کرنے والے ممالک شامل ہیں۔
چین دنیا بھر میں تیل درآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ تہران پر عائد امریکی پابندیوں کے باوجود چین، ایران سے یومیہ 10 لاکھ بیرل خام تیل اور ایندھن کا تیل خریدتا ہے۔
بلومبرگ کے مطابق تہران کی جانب سے پیش کی جانے والی کم قیمتوں نے اس کے تیل کو چینی خریداروں کے لیے پر کشش بنا دیا ہے۔
بلومبرگ کا کہنا ہے کہ ایسے وقت میں جب کہ خام تیل (برنٹ) کی فی بیرل قیمت 70 ڈالر کے قریب پہنچ رہی ہے، ایرانی تیل کی برآمدات میں مسلسل اضافہ عالمی منڈی کا توازن برقرار رکھنے کی کوششوں میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: چین کا ایران میں 4 کھرب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا فیصلہ
لندن میں واقع Energy Aspects Ltd کے تجزیہ کار وونٹاؤ لیو کا کہنا ہے کہ ایران جیسی جگہاؤں سے تیل کی ترسیل میں اضافے کی وجہ سے ایسا لگتا ہے کہ عالمی منڈی کمزور پڑے گی اب سے لے کر آئندہ جون یا جولائی تک ترجیحی تیل مثلا مغربی افریقا، ناروے اور برازیل کے خام تیل کی فروخت کافی مشکل ہو جائے گی۔
بلومبرگ کے مطابق چین کو بھیجا جانے والا ایرانی تیل براہ راست خلیج کے راستے منتقل ہوتا ہے یا پھر اس کا ذریعہ تبدیل کر دیا جاتا ہے گویا کہ وہ مشرق وسطی یا ملائیشیا سے آ رہا ہے۔
بلومبرگ کے ذرائع نے بتایا کہ ایران کا زیادہ تر تیل نجی تجارتی کمپنیوں کی جانب سے خریدا جاتا ہے۔ اس لیے کہ ریاست کی ملکیت آئل ریفائنریز امریکی پابندیوں کے سبب خود کو ایران کے ساتھ لین دین سے دور رکھتی ہیں۔