افغان طالبان کا 19 صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ، حکومت چند علاقوں تک محدود

Published On 13 August,2021 04:42 pm

کابل: (دنیا نیوز) افغانستان میں طالبان تیزی سے شہروں کا کنٹرول حاصل کرنے لگے،19 صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کر لیا، ہرات کے بعد قندھار اور لشکر گاہ کا بھی کنٹرول حاصل کر لیا ،ہرات میں طالبان سے بر سرپیکار ملیشیا کمانڈر اسماعیل خان، گورنر ہرات اور صوبائی پولیس چیف کو طالبان نے گرفتار کر لیا۔

غیر ملکی میڈیا کے مطابق طالبان کا شدید ترین مخالف کمانڈر اسماعیل خان کو گرفتار کر لیا گیا۔ ہرات پر قبضے کے بعد طالبان نے اسماعیل خان، گورنر ہرات، نائب وزیر داخلہ اورصوبائی پولیس چیف کو حراست میں لے لیا۔

اسماعیل خان کے ہمراہ لڑنے والے 207 کمانڈوز نے بھی ہتھیار ڈال دیے۔ طالبان نے قیدیوں کو نقصان نہ پہنچانے اور ان سے عزت کے ساتھ پیش آنے کی یقین دہانی کرادی۔

طالبان نے ہرات ائیرپورٹ سے بھارتی لڑاکا طیارہ بھی قبضے میں لے لیا۔ اس سے پہلے قندوز ائیر پورٹ سے بھارتی ہیلی کاپٹر طالبان کے ہاتھ آیا تھا۔ طالبان نے صدر اشرف غنی کے آبائی صوبے لوگر پر بھی مکمل کنٹرول حاصل کر لیا۔ 

افغان میڈیا کے مطابق طالبان نے اب تک افغانستان کے 34 میں سے 19 صوبوں کے دارالحکومتوں پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ ان صوبائی دارالحکومتوں میں نمروز، جوزجان، سریل، تخار، قندوز، سمنگان، فراہ، بغلان، بدخشاں، غزنی، ہرات، بادغیس، قندھار، ہلمند، غور، اروزگان، زابل، لوگر  ، پکتیکا شامل ہیں۔ 

افغانستان میں حکام کے مطابق افغان طالبان نے دارالحکومت کابل سے محض 50 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع صوبہ لوگر کے دارلحکومت پلِ علم پر قبضہ کر لیا ہے۔ اس سے قبل طالبان نے قندھار اور جنوب میں اہم شہر لشکر گاہ پر بھی قبضہ کرلیا تھا اور افغان سکیورٹی ذرائع نے اس کی تصدیق بھی کردی تھی۔
قندھار اور لشکر گاہ کی فتح کے بعد اب افغانستان کی حکومت کے ہاتھ میں صرف ملک کا دارالحکومت اور دیگر کچھ علاقے باقی بچے ہیں۔

دوحہ میں موجود طالبان ترجمان سہیل شاہین نے کہا ہے کہ خارجی قوتوں کی جانب سے مسلط کی گئی حکومت کو تسلیم کرنا ان کے اصولوں کے خلاف ہے۔

ادھر برطانوی وزیر دفاع بین والس نے افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کو بڑی غلطی قرار دیا۔

ان کا کہنا ہے کہ افواج کی واپسی سے طالبان مضبوط ہو گئے، افغانستان خانہ جنگی کا شکار ناکام ریاست بن چکی ہے وہاں سے القاعدہ کے دوبارہ ابھرنے کا خدشہ ہے جو مغرب کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔

دوسری طرف  افغانستان میں سیکیورٹی کی صورتحال گھمبیر ہوگئی، سوئٹزر لینڈ، ڈنمارک اور ناروے نے کابل میں اپنے سفاتخانے بند کرنے کا اعلان کر دیا، جرمنی اور فرانس نے سفارتی عملہ میں خاطرخواہ کمی کردی۔

 

طالبان کے افغانستان پر بڑھتے قبضے کے پیش نظر متعدد یورپی ممالک نے کابل میں اپنے سفارتخانے بند کر دیے ہیں اور وہاں سے اپنے شہریوں کو نکال رہے ہیں۔

ناروے نے بھی کابل میں اپنے سفارتخانے کو عارضی طور پر بند کرنے اور اپنے شہریوں کو وہاں سے نکالنے کا اعلان کیا ہے۔

فن لینڈ کے وزیر کے مطابق وہ بھی افغانستان میں موجود اپنے عملے کے 130 ارکان کو نکال رہے ہیں۔ جبکہ فرانس نے بھی اپنے شہریوں سے افغانستان کو جلد از جلد چھوڑنے کا کہا ہے۔

روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف کے مطابق افغان حکومت نے سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا ہے، ماسکو میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سرگئی لیوروف نے کہا کہ یہ اجلاس بین الافغان مذاکرات کےلیے مددگار ثابت ہوگا۔

پاکستان میں سابق افغان سفیر عمر زخیلوال کا کہنا ہے کہ اشرف غنی نے 7 سال افغانستان کو ذاتی جاگیر کی طرح چلایا، سرکاری وسائل خود کو بڑا لیڈر ثابت کرنے کی کوششوں میں لگا دیے۔ افغانستان کو بچانا ہے تواشرف غنی کو ہٹاکرمذاکراتی ٹیم کو اختیار دینے ہونگے۔ انہوں نے موجودہ چیف جسٹس کو نگران حکومت کے لیے موزوں امیدوار قرار دیا۔

چینی میڈیا  کے مطابق افغانستان میں قیام امن کے سلسلے میں ٹرائیکا پلس اجلاس سے بھارت کو روس نے اپنی خواہش پر باہر رکھا، ماسکو کسی ایسے ملک کو اجلاس میں بلانا نہیں چاہتا تھا جس کا افغانستان میں کردار نہ ہو، بھارت کی امریکا سے قربت اور پاکستان سے دشمنی بھی روس کے فیصلے کا سبب بنا، چینی میڈیا نے کچا چٹھا کھول کر رکھ دیا۔


گلوبل ٹائمز کے مطابق ماسکو کسی ایسے ملک کو دعوت دینا نہیں چاہتا تھا جس کا افغانستان میں کوئی کردار نہ ہو۔ کابل میں روسی سفیر نے پہلے ہی واضح کیا تھا کہ بھارت افغانستان میں کسی بھی فریق پر اثر و رسوخ نہیں رکھتا۔

رپورٹ میں بھارت کی پاکستان دشمنی کو بھی روسی فیصلے کا سبب قرار دیا گیا، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکا اور روس دونوں پاکستان کو افغان امن عمل کے لیے انتہائی اہم تصور کرتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق بھارت نے خود کو خطے میں امریکی مفادات کے تحٖفظ کے لیے پیش کردیا ہے اور روس کو بھارت اور امریکا کی قربت پر تحفظات تھے۔