سعودی عرب اور اردن کا فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے کے فیصلے کا خیرمقدم

Published On 23 May,2024 05:24 am

ریاض: (ویب ڈیسک) سعودی عرب اور اردن نے آئر لینڈ، ناروے اور سپین کی جانب سے فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔

سعودی عرب کی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ناروے، سپین اور جمہوریہ آئرلینڈ کی جانب سے برادر فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے اعلان کا خیر مقدم کرتے ہیں اور یہ اقدام مشرق وسطیٰ میں دیر پا امن کے حصول کی طرف اہم قدم ہے۔

سعودی وزارت خارجہ نے کہا کہ یورپی ممالک کے فیصلے کو سراہتے ہیں جس میں فلسطینی عوام کے حق خودارادیت کے موروثی حق پر بین الاقوامی اتفاق رائے کو تسلیم کیا گیا ہے، ہم باقی ممالک سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ جلد ایسا ہی فیصلہ کریں جس سے فلسطینی عوام کے حق خودارادیت کے حصول، دیرپا امن اور فلسطینی قوم کے دیرینہ حقوق اور امنگوں کو پورا کرنے کی راہ ہموار ہوسکے۔

یہ بھی پڑھیں: آئر لینڈ، ناروے اور سپین نے فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرلیا

دوسری جانب اردن نے بھی آئرلینڈ، ناروے اور سپین کی طرف سے فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرنے کے ایک مربوط اقدام کو فلسطینی ریاست کی جانب ایک اہم اور ضروری قدم قرار دیتے ہوئے خیر مقدم کیا۔

اردن کے وزیر خارجہ ایمن الصفدی نے اپنے ہنگرین ہم منصب کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ہم دوست یورپی ممالک کی طرف سے آج کے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے فیصلے کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اسے دو ریاستی حل کی جانب ایک اہم اور ضروری قدم سمجھتے ہیں جو جون 1967ء کی سرحدوں کے ساتھ ایک آزاد، خود مختار فلسطینی ریاست تشکیل دے۔

ایمن الصفدی نے مزید کہا ہے کہ اردن یروشلم میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے مقدس مقامات کا محافظ ہے اور ماضی میں اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرتا رہا ہے، یورپی ممالک کے فیصلے ایک وسیع تحریک کا حصہ ہوں گے جو دنیا اور خطے کے ممالک کو ایک منصفانہ اور جامع امن کی طرف جانے والے ایک واضح راستے پر گامزن کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں: یورپی ممالک کی جانب سے فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے پر اسرائیل کا ردعمل سامنے آگیا

اردن کے وزیرِ خارجہ نے کہا ہے کہ فلسطین کو تسلیم کرنے کا عمل اسرائیلی حکومت کے اقدامات کے جواب میں ایک اہم اور ضروری قدم کی نشاندہی کرتا ہے جو نہ صرف دو ریاستی حل کو مسترد کرتے ہیں بلکہ زمینی سطح پر ایسے عملی اقدامات کے حوالے سے بھی یہ خطے میں امن کے حصول کے امکانات کو ختم کر دیتے ہیں۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز تین یورپی ملکوں آئرلینڈ، سپین اور ناروے کی قیادت نے فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے، یہ اعلان پچھلے کئی ہفتوں سے کیے جانے کا امکان ظاہر کیا جا رہا تھا مگر اب یہ اعلان بدھ کو زیادہ ٹھوس، موثر اور جاندار طریقے سے سامنے آیا ہے۔

آئرلینڈ کے وزیر اعظم سائمن ہیرس نے کہا ہے کہ ہم اوسلو اور میڈرڈ کے ساتھ مشترکہ اعلامیہ میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرتے ہیں، یہ آئرلینڈ اور فلسطین کیلئے ایک تاریخی اور اہم دن ہے، ہمیں یقین ہے کہ مزید ملک بھی اس سلسلے میں ہمارے ہمقدم بنیں گے۔

سپین کے وزیر اعظم پیڈرو سانچیز کی طرف سے بھی یہ اعلان کیا گیا کہ 28 مئی کو آزاد فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، ناروے کے وزیر اعظم نے کہا کہ ہمارا ملک فلسطین کو باضابطہ طور پر 28 مئی سے ایک ریاست کے طور پر تسلیم کر لے گا۔

فلسطینی ریاست تسلیم کرنے کا مطلب کیا ہے؟

بین الاقوامی قانون کے پروفیسر اور امریکا و یورپ کی ایسوسی ایشنز آف انٹرنیشنل لاء کے رکن ڈاکٹر محمد محمود مہران کا کہنا ہے کہ سپین، ناروے اور آئرلینڈ کی طرف سے فلسطین کو ایک خودمختار ریاست تسلیم کرنے کی مضبوط حمایت موجود ہے، اس کے نتیجے میں بین الاقوامی منظر نامے پر فلسطین کی قانونی حیثیت اور اقوام متحدہ میں مکمل رکنیت حاصل کرنے کے مواقع بڑھ جائیں گے۔

پروفیسر ڈاکٹر محمد محمود مہران نے مزید کہا ہے کہ یورپی ملکوں کا فلسطین کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کی بنیاد بین الاقوامی قانون فراہم کرتا ہے، خصوصاً اقوام متحدہ کے چارٹر میں درج حق خودارادیت کے علاوہ 1966ء کے شہری، سیاسی، اقتصادی، سماجی اور ثقافتی حقوق سے متعلق بین الاقوامی معاہدے میں بھی اس حق کی توثیق پائی جاتی ہے۔

بین الاقوامی قانون کے ماہر ڈاکٹر محمد محمود مہران نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کی کئی قراردادیں موجود ہیں جن میں فلسطینی عوام کے ناقابل تنسیخ حقوق کی توثیق کی گئی ہے، ان قراردادوں میں جنرل اسمبلی کی قرارداد 181/ 1947ء بھی شامل ہے جس میں فلسطین کی تاریخی سرزمین پر دو ریاستوں کے قیام کا ذکر ہے، نیز سلامتی کونسل کی قرارداد 242 بھی ہے۔

انہوں نے کہا کہ فلسطین کو تسلیم کرنا دیگر یورپی ممالک کیلئے بھی اسی طرح کے اقدامات کرنے کیلئے ایک مضبوط ترغیب کا باعث بنے گا، خاص طور پر ان ممالک میں پارلیمانوں اور سول سوسائٹیز کی سطح پر جن کے ہاں فلسطینی عوام کے حقوق کی حمایت کی بڑھتی ہوئی رفتار ہے۔