نئی دہلی: (ویب ڈیسک) بی جے پی کی حکومت میں ہونے والے کندھمال فسادات کو 17 سال مکمل ہو گئے جن میں سیکڑوں عیسائیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔
25 اگست 2008ء کو ہندو انتہا پسندوں نے بی جے پی کے زیرِحکومت ریاست اڑیسہ کے ضلع کندھمال میں سیکڑوں عیسائیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا، 4 دن تک جاری رہنے والے ان فسادات میں 600 عیسائی گاؤں اور 400 سے زائد چرچ نذرِ آتش کردیے گئے تھے جبکہ تقریباً 75 ہزار افراد بے گھر ہوئے تھے۔
رپورٹ کے مطابق فسادات میں 100 سے زائد عیسائی خواتین اجتماعی زیادتی کا شکار ہوئیں اور درجنوں خاندانوں کو زندہ جلا دیا گیا تھا، انتہاپسندوں نے جبراً ہزاروں عیسائیوں کو ہندو مذہب اپنانے پر مجبور بھی کیا۔
اکنامک ٹائمز کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ فسادات کے مرکزی کردار بجرنگ دل ، راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ اور وشوا ہندو پرشاد تھے۔
فرنٹ لائن کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فسادات کی ریاستی سرپرستی اور پولیس کے خاموش تماشائی کے کردار کی وجہ سے 50 ہزار عیسائیوں نے جنگلوں میں پناہ لے کر جان بچائی۔
ناگاؤں میں 40 انتہا پسندوں نے ایک عیسائی راہبہ کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی اور بھارتی عدالت نے عدم ثبوتوں کی بنیاد پر سب کو رہا کر دیا۔
ہیومن رائٹس واچ، یورپی یونین اور امریکا سمیت کئی ممالک نے ریاستی سرپرستی میں عیسائیوں کے قتل عام کی شدید مذمت کی مگر 17 برس گزرنے کے باوجود مودی سرکار سیاسی فوائد کے لیے ملزمان کو سزا دینے سے گریزاں ہے۔