لاہور: (دنیا انویسٹی گیشن سیل) وزارت خزانہ کی جاری کردہ دستاویزات کے مطابق رواں مالی سال کی پہلی ششماہی (جولائی تا دسمبر) کا جائزہ لیا جائے تو حکومت تیل اور گیس کی مد میں اپنے طے کردہ اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔
حکومت نے تیل اور گیس کی مد میں 539 ارب 50 کروڑ روپے کے ٹیکس اکٹھے کرنے کا فیصلہ کیا تھا، تاہم جولائی تا دسمبرکے عرصے میں حکومت صرف 280 ارب 25 کروڑ روپے اکٹھے کرنے میں کامیاب رہی، اسی طرح رواں مالی سال کی پہلی ششماہی (جولائی تا دسمبر) کے دوران حکومت کی جانب سے پٹرولیم لیوی ٹیکس کی مد میں 177 ارب 80 کروڑ 50 لاکھ روپے اکٹھے کیے گئے ہیں جو کہ حکومت کے طے کردہ ہدف سے 249 ارب 69 کروڑ 50 لاکھ روپے کم ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: درپیش معاشی چیلنجز، پاکستان نے 23 بار آئی ایم ایف سے معاہدے کئے
حکومت کی جانب سے رواں مالی سال کے دوران پٹرولیم لیوی ٹیکس کی مد میں 855 ارب روپے اکٹھے کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا تھا، جسے حاصل کرنے کیلئے حکومت کو ہر ماہ پٹرولیم لیوی کی مد میں 71 ارب 25 کروڑ روپے اکٹھے کرنا تھے، تاہم رواں مالی سال کی پہلی ششماہی (جولائی تا دسمبر) کے دوران حکومت اوسطاً ہر ماہ صرف 29 ارب 63 کروڑ روپے ہی جمع کر سکی۔
اسی طرح رواں مالی سال کی پہلی ششماہی (جولائی تا دسمبر) کے دوران حکومت کو تیل اور گیس کے ٹیکس اہداف میں 259 ارب 25 کروڑ روپے کا خسارہ ہوا، رواں مالی سال کے دوران حکومت کی جانب سے تیل اور گیس کی مد میں ایک ہزار 79 ارب روپے کے ٹیکس اہداف مقرر کیے تھے، جو گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 166 ارب روپے زیادہ تھے، ان ٹیکس اہداف میں پٹرولیم لیوی کی مد میں 855 ارب روپے اکٹھے کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
یاد رہے کہ اس سے قبل حکومت کی جانب سے پٹرولیم لیوی کی مد میں 750 ارب روپے اکٹھے کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا تاہم آئی ایم ایف کی شرائط کے باعث پٹرولیم لیوی کی مد میں طے کی گئی رقم میں 105 ارب روپے کا اضافہ کر کے اسے 855 ارب روپے کر دیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: جنوری 1991ء سے جون 2022ء تک 181 قومی اداروں کی نجکاری
وزارت خزانہ کی دستاویزات کے مطابق حکومت کو پٹرولیم لیوی کی مد میں 427 ارب 50 کروڑ روپے ٹیکس جمع کرنا تھے، تاہم حکومت 177 ارب 80 کروڑ 50 لاکھ روپے ہی حاصل کر سکی، اسی طرح "خام تیل اور قدرتی گیس پر رائلٹی" کی مد میں حکومت طے شدہ ہدف 58 ارب روپے کے مقابلے میں 56 ارب 67 کروڑ 50 لاکھ روپے جبکہ " ایل پی جی پر پٹرولیم لیوی " کی مد میں 4 ارب روپے کے مقابلے میں حکومت 3 ارب 23 کروڑ 20 لاکھ روپے ہی جمع کر سکی۔
اسی طرح "گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس (جی آئی ڈی سی)" کی مد میں حکومت نے 15 ارب روپے کے طے شدہ ہدف کی بجائے صرف 6 ارب 2 کروڑ 20 لاکھ روپے اور "قدرتی گیس ڈویلپمنٹ سرچارج" کی مد میں 20 ارب کی بجائے 10 ارب 83 کروڑ 80 لاکھ روپے جمع کئے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ رواں مالی سال کی پہلی ششماہی (جولائی تا دسمبر) میں حکومت نے خام تیل پر "ونڈ فال لیوی" کی مد میں 5 ارب روپے اکٹھے کرنے کا تخمینہ لگایا تھا، البتہ حکومت نے اس مد میں 14 ارب 84 کروڑ روپے جبکہ "مقامی تیل کی قیمت پر برقرار رعایت" میں 10 ارب کی بجائے 10 ارب 83 کروڑ 80 لاکھ روپے جمع کیے، آئی ایم ایف کی جانب سے حکومت پر مالیاتی خسارہ کم کرنے کے لیے پٹرولیم پر 17 فیصد جنرل سیلز ٹیکس عائد کرنے کی باز گشت ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان سٹاک ایکسچینج: نیا سال سرمایہ کاروں کو راس نہ آیا، پہلے ماہ اربوں ڈوب گئے
یاد رہے کہ فروری 2022ء سے پٹرول پر حکومت کی جانب سے کوئی جنرل سیلز ٹیکس چارج نہیں کیا جا رہا، یوں مستقبل میں پٹرول پر 17 فیصد جنرل سیلز ٹیکس نافذ کرنے سے پٹرول کی فی لٹر قیمت میں 42.47 روپے اضافہ متوقع ہے، اس اضافے سے پٹرول کی فی لٹر قیمت 292 روپے سے تجاوز کر سکتی ہے، بعض اقتصادی ماہرین کے مطابق حکومت پٹرول پر 11 فیصد جنرل سیلز ٹیکس نافذ کر سکتی ہے جس سے پٹرول کی فی لٹر قیمت میں 27.48 روپے اضافہ متوقع ہے۔ اس اضافے سے پٹرول کی متوقع نئی قیمت 277 روپے ہو سکتی ہے۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ طے شدہ شرائط پر عمل کرتے ہوئے حکومت پہلے ہی پٹرولیم لیوی کی مد میں 50 روپے فی لٹر چارج کر رہی ہے، اوگرا کے جاری کردہ مسودے کے مطابق پٹرول کی نئی قیمتوں کا اعلان 15 فروری کو کیا جانا ہے، تاہم 29 جنوری 2023ء کو حکومت کی جانب سے قبل از وقت پٹرول کی حالیہ قیمتوں کا اعلان کرتے ہوئے 35 روپے فی لٹر کا اضافہ کیا جا چکا ہے، جس کی ایک بڑی وجہ 16 جنوری 2023ء سے 29 جنوری 2023ء تک ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں 41 روپے کی کمی تھی۔
پٹرول کی آئندہ قیمتوں میں ہونے والے اضافے کے پیش نظر پٹرول پمپس مالکان کی جانب سے پٹرول پمپس پر مصنوعی قلت دیکھنے میں آ رہی ہے۔