لاہور: (خصوصی ایڈیشن) بچپن سے سنتے آ رہے ہیں کہ پاکستان کرکٹ ٹیم کی بیٹنگ ناکامی سے دوچار ہوتی آر ہی ہے۔ کبھی قسمت سے چل گئی تو چل گئی ورنہ اکثر دھوکا ہی دے جاتی ہے۔
اس کی اصل وجہ کیا ہے کہ پاکستان اچھے فاسٹ باؤلرز تو پیدا کر لیتا ہے لیکن آسٹریلیا سمیت دیگر مضبوط ٹیموں کی طرح مضبوط بیٹنگ لائن اپ ابھی تک نہیں بنا پایا۔
ہماری بیٹنگ ہر دور میں مخالف بائولنگ کے سامنے ڈھیر ہوتی رہی ہے ۔ لیکن بعض اوقات فتح یاب بھی ہوئی لیکن جس تسلسل کا تقاضا کیا جانا چاہیے وہ پاکستان کی بیٹنگ میں نظر نہیں آتا۔ گرین شرٹس تین ٹیسٹ میچز اور تین ٹی ٹوئنٹی میچز کی سیریز کھیلنے کیلئے انگلینڈ کی سرزمین پر ڈیرے ڈالے ہوئے ہے ۔ پہلا ٹیسٹ میچ اولڈ ٹریفورڈ مانچسٹر میں کھیلا گیا جس میں پاکستان جیتا ہوا میچ ہار گیا اور وہ بھی بیٹسمینوں کی ناکامی کی وجہ سے کہ ایک بڑا ہدف نہ دے سکے۔ جبکہ دوسر ا ٹیسٹ میچ سائوتھمپٹن ایجز بائول میں کھیلا جارہا ہے جس میں پاکستان کی بیٹنگ لائن اپ ایک مرتبہ پھر فلاپ ہوگئی اور سینئر بلے باز بری طرح ناکام ہوئے۔
پہلے ٹیسٹ میچ میں پاکستان کی بیٹنگ بہتر رہی ۔شان مسعود جنہوں نے سنچری بنائی لیکن ان کو تین چانس ملے اگر ان کو چانس نہ ملتے تو وہ سنچری تو کیا نصف سنچری بھی نہ بنا پاتے اور یہی ہوا کہ دوسری اننگز میں وہ صفر پر پویلین لوٹ گئے ۔ دوسرے ٹیسٹ میچ میں بھی وہ ڈبل فگر میں داخل نہ ہوسکے اور جس خدشے کا اظہار ٹیسٹ سیریز شروع ہونے سے پہلے کیا جارہا تھا کہ وہ جیمز اینڈرسن کو درست طور پر نہیں کھیل سکیں گے ایسا ہی ہو اور وہ جیمز اینڈرسن کی گیندوں کو درست طور پر نہیں کھیل پارہے۔ دوسرے ٹیسٹ میچ میں جمیز اینڈرسن نے انہیں ایل بی ڈبلیو آئوٹ کیا۔ شاداب خان نے پہلے ٹیسٹ میچ میں بلاشبہ ایک اچھے آل رائونڈر کا کردار ادا کیا اور پراعتماد طریقے سے شارٹس کھیلے۔ ان کی ٹیم میں موجودگی سے ٹیم کو ایک اضافی بیٹسمین ملا۔
پہلے ٹیسٹ میچ میں پاکستان کا دوسری اننگز میں آغاز مایوس کن رہا ۔ دوسری اننگز میں پاکستانی بیٹسمینوں نے مایوس کن کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور وقفے وقفے سے وکٹیں گنواتے رہے ۔کوئی بھی بیٹسمین وکٹ پر جم کر نہ کھیل سکا جس کی وجہ سے لمبی پارٹنر شپ قائم نہ ہوسکی ۔ عابد علی دونوں اننگز میں جدو جہد ہی کرتے نظر آئے ۔ کپتان اظہر علی کی ٹیم میں جگہ نہیں بن رہی اور وہ کپتان بنے ہوئے ہیں ۔ اب چونکہ وہ کپتان ہیں اور انہیں نکالا نہیں جاسکتا اس لئے انہیں برداشت ہی کرنا پڑے گا۔ دلیرانہ فیصلے نہ لئے گئے تو پاکستان کی بیٹنگ ایسے ہی لڑکھڑاتی رہے گی اور ناقابل اعتبار حالت میں ہی رہے گی ۔ پاکستانی بیٹنگ کا دوسری اننگز میں یوں فلاپ ہونا میچ کو پاکستان کی گرفت سے نکال کر لے گیا۔ کپتان اظہر علی جو اب تک79 ٹیسٹ میچز کھیل چکے ہیں لیکن اب بھی کسی خوف کا شکار رہ کر بیٹنگ کرتے نظر آتے ہیں تو پھر انہیں میدان میں کھیلنے نہیں آنا چاہیے۔ ایسے کھلاڑی ٹیم پر بوجھ ہی ہوتے ہیں ۔ اس سے بہتر ہے کہ نئے ٹیلنٹ کو موقع دیا جائے۔ ایسے سینئر کھلاڑی کا کیا فائدہ جس نے رنز ہی نہیں کرنے۔ابھی تک انہوں نے تین اننگز کھیل کر ساڑھے 12 رنزکی ایوریج سے سکور کیا ہے ۔ اسد شفیق کا بھی یہی حال ہے جن سے یہ توقع تھی کہ وہ اننگز لے کر چلیں گے ، وہی سکورہی نہیں کررہے۔
دوسری ٹیسٹ میچ میں فواد عالم سے کیا گلہ وہ تو دس سال بعد ایک پریشر میں میچ کھیلنے آئے اور آتے ہی ایل بی ڈبلیو آئوٹ ہوگئے ۔ سب کی نظریں ان پر تھیں۔ انٹرنیشنل کرکٹ میں پریشر تو ہوتا ہے ۔ اب پہلا میچ کھلاکر کوئی ان کی کارکردگی جج نہیں کرسکتا۔ جو لگاتار میچ کھیل رہے ہیں انہوں نے کیا کیا۔
اصل بات یہ ہے کہ وہ مسئلہ تلاش کیا جائے جو ہماری بیٹنگ کی بنیادی خامی ہے۔ اصل میں ہمارے بیٹسمین کسی باقاعدہ تربیت یا اکیڈمی کے ذریعے اوپر نہیں آتے وہ قدرتی طور پر کھیل کر نچلی سطح سے کھیلتے ہوئے اوپر آتے ہیں۔ ان کے سٹروکس نیچرل ہوتے ہیں اور ان کی غلطیاں پختہ ہوچکی ہوتی ہیں ۔ وہ جب کھیلتے ہوئے انٹرنیشنل لیول پر آتے ہیں تو وہ ان ہی غلطیوں کے ساتھ رہتے ہیں ۔ یہ غلطیاں ان کے ساتھ چلتی ہیں ۔ جو کارکردگی میں تسلسل نہیں آنے دیتیں۔ اگر یہ غلطیاں شروع ہی میں انڈر19 لیول پر کوچنگ سے درست کردی جائیں اور بڑ ے کوچ وہاں لگائے جائیں جو پی سی بی کی طرف سے ہوں تو زیادہ سود مند ہو۔ اب ہوتا کیا ہے جب کھلاڑی پختہ ہوجاتا ہے فرسٹ کلاس کھیل کر ٹرینڈ ہوکر ٹیم میں سلیکٹ ہوجاتا ہے تو اس پر کوچ لگا دیا جاتا ہے ۔ پھر اس پر نئے نئے تجربات کرنے شروع کردیئے جاتے ہیں ۔ اگرچہ اتنے بڑے لیول پر کوچنگ بوسٹ اپ کرنا ہی ہوتا ہے لیکن کئی تدبیریں الٹی بھی ہوجاتی ہیں ۔
اب اولڈ ٹریفورڈٹیسٹ میچ میںہی دیکھ لیں کہ انگلینڈ کے پانچ بہترین کھلاڑی پویلین لوٹ گئے تھے جوز بٹلر اور کرس ووکس نے زبردست پارٹنرشپ قائم کرکے میچ کو اپنے حق میں کرلیا ۔ حالانکہ اس موقع پر میچ پاکستان کے بائولر لے گئے تھے لیکن ان دونوں بیٹسمینوں نے کمال دلیرانہ بیٹنگ کرکے میچ پاکستان کے قبضے سے چھڑالیا۔ یہ ہوتی ہے بیٹنگ ۔اورایسی کٹھن صور ت حال میں بیٹنگ کرنا ہی بیٹسمین کی قابلیت دکھاتا ہے ۔ اگر یہاں پاکستان کے بیٹسمین ہوتے تو وہ کب کے ڈھیر ہوکر پویلین لوٹ چکے ہوتے ۔ ایسی ہی توقع ہم پاکستانی بیٹسمینوں سے کرتے ہیں ، ایسا ہی تسلسل چاہتے ہیں کہ وہ اچھا ٹارگٹ دے کر بائولرز کی مدد کریں۔ ایجز بائول سٹیڈیم میں دوسرے ٹیسٹ میچ کے دوران دیکھا گیا کہ پاکستان کی طرف سے پہلی اننگز میں بیٹسمین ناکام ہوئے تاہم بابر اعظم اور وکٹ کیپر محمد رضوا ن نے کچھ ذمہ داری کا مظاہرہ کیا جس کی وجہ سے پہلی اننگز میں سکور بورڈ پر اچھا سکور بن گیاورنہ ٹیم مایوس کن سکور پر آئوٹ ہوگئی تھی۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے کرتا دھرتائوں کو چاہیے کہ پاکستان کی بیٹنگ کو اس صورت حال سے نکالنے کیلئے دیرپا منصوبہ بندی کریں ورنہ اسی طرح پاکستان کی بیٹنگ دھوکا دیتی رہے گی۔