کرکٹ کے وہ ریکارڈ جو شاید کسی کو یاد نہیں

Published On 01 November,2020 06:44 pm

لاہور: (دنیا میگزین) کرکٹ کے اکثر ریکارڈ لوگوں کو یاد رہتے ہیں لیکن کچھ ایسے ریکارڈ بھی ہیں جو شاید کسی کو بھی یاد نہ ہوں۔ سوائے اُن لوگوں کے جن کا کام ہی صرف ریکارڈ اکٹھا کرنا ہے لیکن ایسے لوگوں کی تعداد کتنی ہے؟ کرکٹ کے وہ ریکارڈ جنہوں نے بہت شہرت حاصل کی اور جوبعد میں ٹوٹ گئے، وہی لوگوں کو یاد ہیں۔

مثلاً 1986ء میں جاوید میاں داد نے شارجہ میں بھارت کے خلاف آخری گیند پر چھکا مار کر میچ جتوا دیا تھا یا شاہد آفریدی نے 1996ء میں کینیا میں سری لنکا کے خلاف صرف 37 گیندوں پر سنچری بنائی تھی۔

یہ تو لوگوں کو یاد ہوگا لیکن کیا لوگوں کو بھی یہ بھی یاد ہے کہ جاوید میاں داد کے بعد کئی اور کرکٹرز نے بھی میچ کی آخری گیند پر چھکا لگا کر اپنی ٹیم کو فتح سے ہمکنار کیا۔

کیا ہمارے شائقین کو یہ یاد ہے کہ شاہد آفریدی نے جس بلے سے سنچری بنائی تھی وہ سچن ٹنڈولکر کا تھا اور یہ کتنے لوگ جانتے ہیں کہ شاہد آفریدی کا ریکارڈ ٹوٹ چکا ہے۔

ہم ذیل میں ان ریکارڈز کے بارے میں اپنے قارئین کو بتا رہے ہیں جن کے بارے میں یا تو کسی علم نہیں اور اگر ہے تو ایسے لوگ بہت کم ہیں۔

ایک روزہ میچز میں سب سے زیادہ صفر پر آؤٹ ہونے والے

یہ ایک ایسا ریکارڈ ہے جو یقیناً ہر کسی کو یاد نہیں ہوگا۔ سنت جے سوریا 90 کی دہائی میں اپنے جارحانہ کھیل کی وجہ سے بہت مشہور تھے۔ دنیا کا کوئی باؤلر ایسا نہیں تھا جو انہیں باؤلنگ کراتے ہوئے خوشی محسوس کرتا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ باؤلرز کیلئے ایک ڈراؤنا خواب تھے۔ بہت سے باؤلرز انہیں درد سر سمجھتے تھے۔ انہوں نے 17 گیندوں پر 50 رنز بھی بنائے تھے اور ان کا یہ کوئی واحد ریکارڈ نہیں ان کے کچھ اور حیران کن ریکارڈ ہیں وہ ایک روزہ میچوں میں 34 بار صفر پر آؤٹ ہوئے۔ ان کے ساتھ جو کرکٹر نظر آتے ہیں وہ ہیں شاہد آفریدی۔ 37 گیندوں پر سنچری بنانے والے شاہد آفریدی ایک روزہ میچوں میں 30 بار صفر پر آؤٹ ہوئے۔ پھر وسیم اکرم کا نمبر آتا ہے جو ایک روزہ میچوں میں 28 بار بغیر کوئی رن بنائے پویلین لوٹ گئے۔ اگرچہ وسیم اکرم نے چند ایک روزہ میچوں میں اچھی بلے بازی کا مظاہرہ کیا، خاص طور پر 1992ء کے ورلڈ کپ فائنل میں انہوں نے انضمام الحق کے ساتھ مل کر دلکش سٹروک کھیلے لیکن اس حقیقت کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ وسیم اکرم کوئی باقاعدہ آل راؤنڈر نہیں تھے اور نہ ہی انہیں آل راؤنڈر کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ یہ درست ہے کہ انہوں نے آسٹریلیا میں ایک ٹیسٹ سنچری بنائی تھی اور پھر اپنے ملک میں زمبابوے کے خلاف ڈبل سنچری بھی بنائی تھی لیکن ان کی اصل پہچان ان کی باؤلنگ ہی تھی۔

ٹیسٹ کرکٹ میں سب سے زیادہ زیرو کس کے؟

صرف ایک روزہ میچوں میں ہی نہیں بلکہ ٹیسٹ کرکٹ میں بھی ہمیں کئی ایسے کرکٹرز ملیں گے جو کریز پر آتے تھے اور آتے ہی رخصت ہو جاتے تھے۔ ذرا اندازہ لگائیے کہ جے سوریا نے جو ریکارڈ ایک روزہ میچوں میں قائم کیا، ٹیسٹ میچوں میں وہ ریکارڈ کس نے توڑا؟ یہ اعزاز ویسٹ انڈیز کے سابق تیز رفتار باؤلر کوٹنی واش نے حاصل کیا۔ کوٹنی واش اور کرٹلی امبروز نے 90 کی دہائی میں ویسٹ انڈیز کے لئے بہت خدمات سرانجام دیں۔ کوٹنی واش نے 500 سے زائد ٹیسٹ وکٹیں اپنے نام کیں۔ بلاشبہ وہ ایک شاندار باؤلر تھے لیکن جہاں تک بلے بازی کا سوال ہے تو اس بارے میں کچھ نہ کہنا ہی بہتر ہے۔ وہ بلے کا استعمال جانتے ہی نہیں تھے۔ ان کے بارے میں شائقین بلاجھجک یہ کہتے تھے ’’اب گیا، اب گیا‘‘۔ وہ ٹیسٹ میچوں میں 43 بار صفر پر آؤٹ ہوئے۔ انہوں نے 185 ٹیسٹ اننگز کھیلیں۔ بایں ہمہ بلے سے ان کی دوستی نہ ہو سکی۔ ان کے بعد نیوزی لینڈ کے کرس مارٹن ہیں جو 36 بار بغیر کوئی رن بنائے آؤٹ ہوئے۔ پھر آسٹریلیا کے باکمال برق رفتار باؤلر گلین میگرا کا نمبر آتا ہے۔ انہوں نے بھی ٹیسٹ میچوں میں صفر پر آؤٹ ہونے کی گویا قسم کھا رکھی تھی۔ وہ 138 اننگز میں 35 مرتبہ صفر پر آؤٹ ہوئے۔

ٹیسٹ کرکٹ میں سب سے زیادہ کلین بولڈ کون ہوئے؟

کلین بولڈ ہونا کسی بھی بلے باز کے لئے شرمندگی کا باعث بنتا ہے لیکن یہ تو باؤلر کا کمال ہے کہ وہ اپنی نپی تلی باؤلنگ سے بڑے سے بڑے بلے باز کو کلین بولڈ کر دیتا ہے یا تو بال ہی بڑی زبردست ہوتی ہے یا پھر بلے باز تکنیکی طور پر اسے درست طریقے سے نہیں کھیلتا۔ بہرحال راہول ڈریوڈ، سچن ٹنڈولکر جیسے اعلیٰ درجے کے بلے باز کئی بار کلین بولڈ ہوئے۔ راہول ڈریوڈ اور سچن ٹنڈولکر کا ذکر ہوا ہے تو ہمیں 1998-99ء کا کلکتہ ٹیسٹ یاد آ جاتا ہے جب شعیب اختر نے ان دونوں کو ان سوئنگنگ یارکر سے کلین بولڈ کیا۔ پہلے راہول ڈریوڈ کلین بولڈ ہوئے پھر سچن ٹنڈولکر آئے اور شعیب اختر کی پہلی ہی گیند پر کلین بولڈ ہو کر پویلین لوٹ گئے۔ پورے سٹیڈیم میں سناٹا چھا گیا۔ اگلے دن بھارتی اخبارات نے سرخی جمائی Shoaib Yorks India یہیں سے شعیب اختر کو شہرت ملی اور پھر راولپنڈی ایکسپریس نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا۔ بہرحال راہول ڈریوڈ جیسا بلے باز ٹیسٹ میچوں میں 54 مرتبہ کلین بولڈ ہوا۔ دوسرے نمبر پر آسٹریلیا کے ایڈم گلکرسٹ تھے جو 43 بار کلین بولڈ ہوئے۔ تیسرے نمبر پر سچن ٹنڈولکر تھے جنہیں 48 بار کلین بولڈ ہونے کا شرف حاصل ہوا۔

ٹیسٹ کرکٹ میں مہنگا ترین اوور

اس میں کوئی شک نہیں کہ انگلینڈ کے جمی اینڈرسن ایک شاندار برق رفتار باؤلر ہیں۔ وسیم اکرم کی رائے میں جمی اینڈرسن ڈیل سٹین سے بہتر باؤلر ہیں لیکن وقار یونس ڈیل سٹین کے حق میں ہیں۔ تاہم وسیم اکرم کی رائے پر اس وقت اعتراضات کئے گئے جب پچھلی ایشینز ٹرافی کے میچز منعقد ہوئے۔ اگرچہ اینڈرسن نے آسٹریلوی بیٹنگ لائن کو اتنا نقصان نہیں پہنچایا لیکن انہوں نے ایک ریکارڈ ضرور بنایا۔ آسٹریلوی بلے باز جارج بیلی نے پرتھ میں ان کے ایک اوور میں 28 رنز بنائے۔ جنوبی افریقہ کے رابن پیٹرسن نے ایک روزہ میچ میں 35 رنز دیئے۔ اس دفعہ بلے باز سری لنکا کے تھیسارا پیریرا تھے۔ یہ ایک روزہ میچ تھا لیکن پیٹرسن نے ایک ٹیسٹ میچ میں بھی ایک اوور میں 28 رنز دینے کا اینڈرسن کا ریکارڈ برابر کیا۔

ٹیسٹ کرکٹ میں زیادہ سے زیادہ نو بالز اور طویل ترین اوور

90ء کی دہائی کے سب سے ہیبت ناک باؤلر کرٹلی امبروز تھے۔ 400 سے زیادہ ٹیسٹ وکٹیں حاصل کرنے والے امبروز نے ٹیسٹ کرکٹ کا طویل ترین اوور کرایا یہ اوور 15 بالز پر محیط تھا اور اس میں 9 نو بالز تھیں۔ یہ میچ فروری 1993ء میں پرتھ میں کھیلا گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ پہلی اننگز میں کرٹلی امبروز کی غلطیوں کے باوجود ویسٹ انڈیز یہ میچ 10 وکٹوں سے جیت گیا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ امبروز کو مین آف دی میچ قرار دیا گیا۔ کرکٹ کی تاریخ میں جتنے بڑے نام ملتے ہیں ان کے کارنامے بھی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی کچھ میچز میں بڑی بڑی غلطیاں بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتیں۔

ایک روزہ میچ میں طویل ترین اوور

یہ اعزاز پاکستانی برق رفتار باؤلر محمد سمیع کو حاصل ہے جنہوں نے ایک روزہ میچ کا طویل ترین اوور کرایا۔ انہوں نے بنگلا دیش کے خلاف 17 بالز کا اوور کرایا۔ اس اوور میں سات وائیڈ بالز اور چار نو بالز شامل تھیں۔ یہ واقعہ ایشیا کپ 2004ء میں پیش آیا۔ میچ کا تیسرا اوور تھا جبکہ محمد سمیع کا پہلا اوور وکٹ میڈن تھا۔ 50 اوورز کے میچ میں یہ ابھی تک طویل ترین اوور ہے۔ بہر حال ریکارڈ تو پھر ریکارڈ ہے چاہے یہ مثبت ہو یا منفی۔

ایک ٹیسٹ میچ میں بغیر وکٹ لئے سب سے زیادہ رنز دینے والے بائولرز

ایک ٹیسٹ میچ میں بغیر وکٹ لئے سب سے زیادہ رنز دینے والے کسی بھی بائولر کیلئے وہ لمحات کتنے اذیت ناک ہوں گے جب اُس کی بائولنگ پر مسلسل رنز بن رہے ہوں اور وہ کوئی وکٹ حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو۔ ایسے حالات میں بائولر کی مایوسی قابل رحم ہوتی ہے۔ کرکٹ کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو کئی ایسے نامور بائولرز ملتے ہیں جنہوں نے کسی ایک میچ میں بہت زیادہ رنز دیئے لیکن کوئی وکٹ حاصل نہ کر سکے۔ یقیناً وہ مایوسی کے سمندر میں ڈوب گئے ہوں گے۔ 1980ء میں جب آسٹریلیا کی ٹیم پاکستان آئی تو اُس وقت کے نامور برق رفتار بائولر ڈینس للی کا جو حشر ہوا وہ اب تک شائقین کرکٹ کو یاد ہے۔ اس واقعہ کو 40 برس گزر چکے ہیں لیکن ڈینس للی اب تک یہ کہتے ہیں کہ 1980ء میں پاکستان کا دورہ ان کیلئے کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہ تھا۔ تین ٹیسٹ میچز کی اس سیریز میں انہیں چند وکٹیں ہی ملیں۔ فیصل آباد ٹیسٹ میں تو ڈنیس للی کا بہت برا حال ہوا۔ انہیں کوئی وکٹ نہ ملی اور انہوں نے رنز بھی بہت زیادہ دئیے۔ یہی وجہ تھی کہ للی نے جل کر کہا تھا کہ فیصل آباد کی وکٹ پر ان کی قبر بنائی جائے۔ لیکن کہانی یہیں ختم نہیں ہوئی۔ ان کے بعد بھی ایسے بائولر آئے جنہیں کسی ایک ٹیسٹ میچ میں بہت زیادہ رنز دینے کے باوجود کوئی وکٹ نہ ملی۔ اس لحاظ سے پاکستانی نژاد عمران طاہر بہت بدقسمت رہے۔ وہ جنوبی افریقہ کی طرف سے کھیلتے تھے۔ ویسے وہ بھی وہ ایک روزہ میچوں کے اچھے بائولرز تھے لیکن ٹیسٹ میچوں میں وہ کچھ خاص نہ کر سکے۔ 2012ء میں آسٹریلیا کے خلاف ایڈیلیڈ ٹیسٹ میں انہوں نے 37 اوورز کرائے اور 267 رنز دینے کے باوجود انہیں کوئی وکٹ نہ مل سکی۔ دوسرے نمبر پر پاکستان کے خان محمد کا نمبر آتا ہے۔ 1958ء میں انہوں نے ویسٹ انڈیز کے خلاف ایک ٹیسٹ میچ میں 259 رنز دیئے لیکن کسی کھلاڑی کو پویلین واپس نہ بھیج سکے۔ اسے بائولرز کی بد قسمتی ہی کہا جاسکتا ہے۔

سست ترین ٹیسٹ سنچری

یہ اعزاز بھی پاکستان کے حصے میں آیا اور اس ریکارڈ کو ابھی تک کوئی نہیں توڑ سکا۔ ٹیسٹ میچز کی تاریخ کی سست ترین سنچری پاکستان کے سابق اوپنر مدثر نذر نے بنائی۔ 1977-78ء میں انہوں نے انگلینڈ کے خلاف لاہور میں سنچری بنائی اور یہ سنچری انہوں نے 557 منٹ میں مکمل کی۔ کرکٹ کے جید نقادوں کی رائے میں اس ریکارڈ کو توڑنا نہایت مشکل ہوگا کیونکہ اب سست کرکٹ کا دور ختم ہو گیا ہے۔ لوگ اب تیز کرکٹ دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ کوئی بلے باز اب اتنی سست کرکٹ نہیں کھیل سکے گا جتنی مدثر نذر نے اس ٹیسٹ میچ میں کھیلی۔ اتنی سست کرکٹ کو اب کون برداشت کرے گا۔ ویسے مدثر نذر ہمیشہ سے ہی سست کرکٹ کھیلتے تھے۔ اس لئے عمران خان انہیں ایک روزہ کرکٹ میچوں میں شامل کرنے سے اجتناب کرتے تھے۔ البتہ وہ ایک کارآمد کھلاڑی تھے کیونکہ وہ ایک عمدہ میڈیم پیسر ہونے کے ساتھ ساتھ سیمنگ پچز پر گیند کو سوئنگ کرتے تھے۔ انگلینڈ میں انہیں مین ود دی گولڈن آرم (man widh the golden arm) کہا جاتا تھا۔ لیکن ان کے نام کے ساتھ جو ریکارڈ درج ہے اسے بھی یاد رکھنا پڑتا ہے۔

100ویں ٹیسٹ میچ میں صفر پر کون آئوٹ ہوا؟

کسی بھی کرکٹر کیلئے 100 ٹیسٹ میچز کھیلنا بہت بڑا اعزاز ہے لیکن اگر سنچری ٹیسٹ میں سنچری بنائی جائے تو اس سے بڑی بات کیا ہو سکتی ہے؟ لیکن کیا کوئی ایسا کرکٹر بھی ہے جو اپنے 100ویں ٹیسٹ میچ میں صفر پر آئوٹ ہوا ہو۔ جی ہاں انگلینڈ کے سابق کپتان الیسٹر کک کیلئے 100واں ٹیسٹ اچھی خبر بھی لایا اور مایوس کن بھی۔ اچھی خبر یہ تھی کہ وہ سنچری ٹیسٹ کھیل رہے تھے اور مایوس کن بات یہ ہوئی کہ وہ اس ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں صفر پر آئوٹ ہو گئے۔ 99 ٹیسٹ میچوں میں الیسٹر کک کبھی بھی پہلی گیند پر آئوٹ نہیں ہوئے لیکن اپنے سنچری ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں انہوں نے پہلی مرتبہ گولڈن ڈک (Golden Duck) حاصل کیا۔

نروس نائینٹیز کا شکار ہونے والے بلے باز

آٹھ کرکٹر ایسے ہیں جو کئی بار نروس نائینٹز کا شکار ہوئے۔ اس طرح اُن کے ریکارڈ میں وہ سنچریاں درج نہ ہو سکیں جو ہو سکتی تھیں۔

ذیل میں ان بلے بازوں کے نام کے ساتھ ساتھ یہ بھی ذکر کیا جا رہا ہے کہ وہ کتنی بار نروس نائنٹیز کا شکار ہوئے۔

سچن ٹنڈولکر 28 مرتبہ، اے بی ڈویلئرز 14 مرتبہ، راہول ڈریوڈ 14 مرتبہ، جیک کیلس 13 مرتبہ، رکی پونٹنگ 13 مرتبہ، انضمام الحق 12 مرتبہ، کین ولیم سن 11 مرتبہ، میتھیو ہیڈن 11 مرتبہ نروس نائنٹیز کا شکار ہوئے

تحریر: عبدالحفیظ ظفر