چنکارا ہرن اتنا نایاب کیوں ہے؟

Last Updated On 05 April,2018 10:41 pm

نئی دہلی : (ویب ڈیسک) کالا ہرن شکار معاملے میں فلم ایکٹر سلمان خان کو راجستھان کی ایک کورٹ نے آج صبح قصور وار قرار دیا ۔ اس معاملے میں تمام دوسرے ملزمان سیف علی خان ،نیلم ،تبو اور دشینت سنگھ کو بری کر دیا گیا ہے۔واضح ہو کہ 28مارچ کو اس معاملے میں دیو کمار کھتری کی عدالت میں آخری سنوائی ہوئی تھی اور فیصلہ محفوظ رکھا گیا تھا۔

اداکار سلمان خان سمیت نامزد دیگر اداکاروں پر الزام تھا کہ انہوں نے 1998 میں راجھستان کے گاؤں بشنوئی میں فلم ہم ساتھ ساتھ ہیں کی شوٹنگ کے دوران 2 نایاب کالے ہرنوں کا شکار کیا تھا۔ مقامی گاؤں کے افراد نے ہرن کے شکار پر سلمان خان اور دیگر کے خلاف مقدمہ درج کرایا اور اپیل کی کہ ملزمان کو سخت سزا دی جائے۔

دریں اثنا بھارتی میڈیا کے مطابق کورٹ نے اس معاملے میں سلمان خان کو پانچ سال کی سزا کے ساتھ ان پر دس ہزار روپے کا جرمانہ لگایا ہے۔غور طلب ہے کہ فلم ہم ساتھ ساتھ ہیں کی شوٹنگ کے دوران 2 اکتوبر1998کو یہ حادثہ ہوا تھا۔ سلمان پر وائلڈ لائف تحفظ قانون کی دفعہ 51 اور تعزیرات ہند کی دفعہ 149 کے تحت الزام طے کئے گئے تھے۔ دفعہ 51 میں زیادہ سے زیادہ 6 سال کی سزا کا اہتمام ہے۔ سماعت کے دوران بھوانی سنگھ بھاٹی نے کہا کہ اس رات تمام ملزم جپسی کار میں سوار تھے۔ سلمان گاڑی چلا رہے تھے۔ ہرنوں کا جھنڈ دیکھنے پر انہوں نے گولی چلا کر دو ہرن مار دیے۔ انہوں نے آگے کہا کہ لوگوں کے دیکھنے پر تمام ملزمان مردہ ہرنوں کو موقع پر چھوڑ‌ کر بھاگ گئے تھے۔ جس کے کافی ثبوت موجود ہیں۔

چنکارا ہرن نایاب کیوں؟

کالے ہرن یا بلیک بک کو انڈین ایٹیلوپ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ عام طور پر انڈیا، پاکستان اور نیپال میں پایا جاتا ہے۔ کچھ علاقوں میں اس کی تھوڑی بہت آبادی ہے جبکہ محفوظ علاقوں میں ان کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ کچھ علاقے ایسے بھی ہیں جہاں یہ فصلوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ ان کے رہنے کے علاقوں میں لگاتار کمی آرہی ہے، لیکن پھر بھی ان کے معاملے میں کچھ توازن قائم ہے۔ کالے ہرن کی خاص بات یہ ہے کہ وہ وقت اور حالات کے مطابق خود کو بدلنا سیکھ گئے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود بڑھتی ہوئی انسانی آبادی، پالتو جانوروں کی تعداد بڑھنے اور معاشی ترقی کی وجہ سے ان پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔

خاص بات یہ ہے کہ نر کالا ہرن رنگ بھی بدلتا ہے۔ مون سون کے آخر تک نر ہرنوں کا رنگ خاصا کالا دکھتا ہے، لیکن سردیوں میں یہ رنگ ہلکا پڑنے لگتا ہے اور اپریل کی شروعات تک ایک بار پھر بھورا ہو جاتا ہے۔ جنوبی انڈیا میں ان کی ایک آبادی ایسی بھی ہے جو کبھی کالی نہیں ہوتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود نر، مادہ اور بچوں کے مقابلے میں زیادہ گاڑھے رنگ کے ہوتے ہیں۔ کالے ہرن عام طور پر گھاس چرتے ہیں، لیکن تھوڑی بہت ہریالی والے ریگستانی علاقوں میں بھی پائے جاتے ہیں۔

 ایک اندازے کے مطابق قریب دو سو سال پہلے ان کی آبادی 40 لاکھ تھی، لیکن سنہ 1947 میں 80 ہزار رہ گئی۔ 1970 کی دہائی میں ان کی آبادی کم ہو کر 22-24 ہزار پہنچ گئی جبکہ سنہ 2000 تک یہ 50 ہزار ہوگئی تھی۔ انڈیا میں کالے ہرن عام طور پر راجستھان، پنجاب، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر اور گجرات میں پائے جاتے ہیں۔ انڈیا سے باہر کی بات کریں تو یہ نیپال میں یہ قریب دو سو، ارجنٹینا میں 8600 اور امریکہ میں 35 ہزار ہیں۔


نر کالے ہرن کا وزن عام طور پر 34-45 کلوگرام ہوتا ہے اور کندھے تک اس کی انچائی 74-88 سینٹی میٹر ہوتی ہے۔ مادہ کالے ہرن کی بات کریں تو اس کا وزن 31-39 کلوگرام ہوتا ہے اور انچائی نر سے ذرا کم ہوتی ہے۔ مادہ بلیک بک بھی نر کی طرح سفید رنگ لیے ہوتی ہے۔ دونوں کی آنکھوں کے چاروں طرف، منہ، پیٹ کے حصے اور پیروں کے درمیان والے حصوں کا سفید رنگ ہوتا ہے۔ دونوں کی شناخت میں سب سے بڑا عنصر سینگ کا ہوتا ہے۔ نر کے لمبے سینگ ہوتے ہیں جبکہ مادہ میں ایسا نہیں ہوتا۔

برطانوی نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے اُدے پور میں چیف کنزرویٹر آف فاریسٹ راہل بھٹناگر نے بتایا کہ کالا ہرن شیڈیول ون میں آنے والا جانور ہے اور اس کے شکار پر مکمل پابندی ہے،’یہ ہرن عام طور پر راجستھان کے علاقوں میں پایا جاتا ہے، اس کا کافی شکار ہوا کرتا تھا اور اس وجہ سے اسے بچانے کے لیے کڑے قانون کا سہارا لیا جاتا ہے۔ ‘

قدیم تہذیب سے تعلق

بشنوئی فرقہ انھیں تقریباً پوجتا ہے۔ آندھرا پردیش نے انھیں ’ریاستی جانور‘ کا درجہ دیا ہے۔سنسکرت میں ان ہرنوں کا ذکر کرشن ہرن کی شکل ملتا ہے۔ ہندوؤں کے قدیم گرنتھوں کے مطابق بلیک بک بھگوان کرشن کا رتھ کھینچتا نظر آتا ہے۔ راجستھان میں کرنی ماتا کو کالے ہرن کا سرپرست سمجھا جاتا ہے۔

انڈین تہذیب بھی کالے ہرن کا خاص مقام ہے۔ قیاس ہے کہ وادی سندھ کی تہذیب میں یہ خوراک کا ذریعہ رہا ہے اور دھولا ویزا اور مہر گڑھ جیسی جگہوں پر بھی اس کی ہڈیوں کی باقیات ملی ہیں۔16 وہں سے 19 صدی کے درمیان قائم رہنے والی مغل سلطنت میں بلیک بک کی کئی چھوٹی پیٹنگز (منی ایچرز) انڈیا اور نیپال میں بلیک بک کو نقصان نہیں پہنچایا جاتا اور نقصان پہنچانے والوں سے سختی سے نمٹا جاتا ہے۔