نئی دہلی: (ویب ڈیسک) دنیا بھر میں سوشل میڈیا کا بے جا استعمال روز بروز بڑھ رہا ہے، اس دوران نوجوانوں کی بڑی تعداد اس پر وقت صرف کرتی ہے، تاہم سوشل میڈیا کا استعمال اب انتشار پھیلانے اور جعلی خبروں کا باعث بھی بن گیا ہے، اس وقت روایتی حریف ملک بھارت میں سب سے زیادہ جعلی خبریں پھیلائی جاتی ہیں، روایتی حریف ملک پاکستان کیخلاف جعلی خبریں پھیلاتا ہے۔ جس کا تدارک کرنے کے لیے وفاقی حکومت، پاک فوج گاہے بگاہے دنیا کو بتاتے رہتے ہیں۔ اسی حوالے سے بھارت کے جعلی خبروں میں ملوث ہونے کی تصدیق سوشل میڈیا کی سب سے بڑی ویب سائٹ فیس بک نے بھی کر دی ہے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق نفرت انگیز تقاریر اور غلط معلومات کو لے کر مسلسل سوالات کے گھیرے میں رہی کمپنی فیس بک بھارت میں نفرت انگریز تقریر اور تشدد سے جڑے مواد کو لے کر پریشانیوں کا سامنا کررہی ہے۔
فیس بک کے داخلی دستاویزات سے اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ کمپنی دنیا کے دوسرے بڑے آبادی والے ملک بھارت میں غلط معلومات، نفرت انگیز تقریر اور تشدد پر جشن منانے پر مبنی مواد کے مسائل سے دوچار ہے ۔
امریکی میڈیا کے مطابق سوشل میڈیا کے محققین نے اس بات پر روشنی ڈالی ہے کہ ایسے گروپس اور پیجز موجود ہیں جو’’ گمراہ کن ، اشتعال انگیز اور مسلم مخالف مواد سے بھرے ہوئے ہیں۔‘‘نیویارک ٹائمز میں ہفتہ کو شائع خبر کے مطابق فیس بک کے محققین نے فروری 2019 میں نئے صارف اکاؤنٹس بنائے تاکہ دیکھاجا سکے کہ کیرل کے رہائشی کے لیے سوشل میڈیا ویب سائٹ کیسانظر آتا ہے ۔
امریکی میڈیا کے مطابق اگلے 3 ہفتوں تک یہ اکاؤنٹ معمول کے اصولوں کے مطابق چلایا گیا۔ گروپس سے جڑنے، ویڈیو اور سائٹ کے نئے پیج کو دیکھنے کے لیے فیس بک کی Algorithm (الگورتھم) طریقہ سے دی گئی تمام سفارشات کی تعمیل کی گئی اس کا نتیجہ رہا ہے کہ صارف کے سامنے اشتعال انگیز تقریر، غلط معلومات اور تشدد پر جشن منانے کا سیلاب آگیا ، جسے فیس بک نے داخلی رپورٹ میں دستاویزی شکل دی اور اس مہینے کے آخر میں متعلقہ رپورٹ شائع کی گئی ۔
نیو یارک ٹائمز سمیت خبر رساں اداروں کے گروپ کوموصول ہوئی رپورٹ کے مطابق داخلی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ کمپنی اپنی سب سے بڑی مارکیٹ میں غلط معلومات، نفرت انگیز تقریر اور تشدد کاجشن منانے والے مواد سے دو چار ہے ۔
فیس بک کی رپورٹ کے حوالے سے نیویارک ٹائمز نے بتایا کہ بھارت میں 22 تسلیم شدہ زبانوں میں سے صرف پانچ زبانوں میں ہی مصنوعی ذہانت (AI) کی بنیاد پر مواد کا تجزیہ کرنے کی سہولت موجد ہے لیکن ان میں ہندی اور بنگالی شامل نہیں ہے ۔