لاہور: (دنیا نیوز) کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے لاہور میں کلورین ملے پانی کا استعمال تو شروع کر دیا گیا مگر واسا نے ٹیوب ویلز میں کلوری نیٹرز ہی نصب نہ کیے، ٹیوب ویل آپریٹرز کا اندازے سے کلورین کا استعمال فائدہ کی بجائے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ طبی ماہرین نے پانی میں کلورین کی زیادہ مقدار بارے خطرے کی گھنٹی بھی بجا دی۔
کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر، لاہور میں کلورین ملے پانی کا استعمال جاری ہے۔ پانی میں کلورین شامل کرنے بارے واسا کی بڑی نااہلی کا انکشاف ہوگیا۔ ٹیوب ویل آپریٹرز مقررہ معیار کے بجائے اندازے سے کلورین ملانے لگے۔ پانی میں کلورین ڈالنے کے لئے بیشتر ٹیوب ویلز پر کلوری نیٹرز نصب ہی نہ کیے گئے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ہدایات پر کلورین کی مخصوص مقدار پانی میں شامل کرنا ضروری ہے، اس کام کے لیے خود کار مشین، کلوری نیٹر کا استعمال کیا جاتا ہے تاہم واسا اس مشین کا استعمال نہیں کر رہی۔
لاہور کے ٹیوب ویلز میں ایک پلاسٹک کے پائپ کے ذریعے اندازے سے کلورین شامل کی جا رہی ہے۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ کلورین کا استعمال اچھا ہے تاہم اس کی مقدار کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم نے بتایا کہ پانی میں کلورین کی زیادہ مقدار جلد، گلے اور دیگر امراض کا سبب بن سکتی ہے، تمام ٹیوب ویلز پر کلوری نیٹرز کی تنصیب بہت ضروری ہے۔
ڈپٹی مینیجنگ ڈائریکٹر واسا اسلم خان نیازی نے کہا کہ ایک خاص مقدار میں کلورین پانی میں ڈال رہے ہیں تاہم لاک ڈاؤن کے بعد کلوری نیٹرز بھی لگا دیئے جائیں گے۔
سروے کے مطابق واسا کی حدود میں 58 سے زائد ٹیوب ویلز پر کلوری نیٹرز نصب نہیں۔ لاہور کے علاقہ شاد باغ، ٹی اینڈ ٹی فلیٹس، حسین پارک، مصری شاہ، سلطان پورہ، ظفر اللہ روڈ کے ٹیوب ویلز کے پانی میں کلورین کی مقررہ مقدار نہیں ہے۔
اسی طرح فرخ آباد، کامران پارک، نیو بیگم کوٹ، جیا موسی اور گلشن حیات کے علاقوں کے ٹیوب ویلز میں کلوری نیٹرز کی تنصیب نہیں کی گئی۔