اسلام آباد: (دنیا نیوز) سابق وزیراعظم نواز شریف اور پی ٹی آئی کے رہنما جہانگیر ترین پارلیمانی سیاست سے تاحیات نا اہل ہوگئے، 5 رکنی بینج نے متفقہ فیصلہ سنایا۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ 52 صفحات پر مشتمل ہے۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے فیصلہ پڑھ کر سنایا۔ جسٹس عظمت سعید کا 8 صفحات پر مشتمل اضافی نوٹ بھی فیصلے کا حصہ ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی تاحیات ہوگی ، جو شخص صادق اور امین نہ ہو اسے آئین تاحیات نا اہل قرار دیتا ہے ، رکن پارلیمنٹ ہونے کیلئے صادق اور امین ہونا ضروری ہے ، نواز شریف اور جہانگیر ترین تاحیات نااہل ہیں۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ عبدالغفور لہڑی کیس میں جھوٹے بیان حلفی پر آرٹیکل 62 ون ایف کا اطلاق ہوا ، عبدالغفور کیس میں کہا گیا آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی تاحیات ہوگی ، آئین سازوں نے آرٹیکل 62 ون ایف میں نااہلی کی مدت کا تعین نہیں کیا ، آرٹیکل 62 ون ایف کا 63 ون ایچ سے موازنہ نہیں ہوسکتا۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا عدالتی ڈیکلیئریشن کی موجودگی تک نا اہلی تاحیات ہوگی ، اٹھارویں ترمیم میں آرٹیکل 62 ون ایف میں عدالتی میکنزم فراہم کیا گیا۔
جسٹس عظمت سعید کا اضافی نوٹ
جسٹس شیخ عظمت سعید نے فیصلے میں اضافی نوٹ بھی لکھا جس میں انہوں نے کہا فیصلے سے اتفاق کرتا ہوں مگر اس کی وجوہات سے نہیں ، آرٹیکل 62 ون ایف کی بنیاد ہماری اسلامی اقدار ہیں ، ایسی شقوں کی تشریح انتہائی محتاط اندازمیں کرنی چاہیئے ، اٹارنی جنرل کا موقف درست تھا کہ یہ معاملہ پارلیمنٹ کو طے کرنا چاہیئے۔
اضافی نوٹ میں مزید کہا گیا کہ عدالت بارہا کہہ چکی آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی دائمی ہوگی ، جب تک عدالتی فیصلہ موجود رہے گا ، نااہلی بھی رہے گی ، عدالتی ڈیکلیئریشن کی موجودگی تک متعلقہ شخص نااہل رہے گا ، بعض وکلا کے مطابق تاحیات نااہلی سخت فیصلہ ہوگا ، یہ دلیل مجلس شوریٰ کے لیے زیادہ مناسب ہے۔
جسٹس عظمت سعید نے اپنے اضافی نوٹ میں کہا ہم آئین کی تشریح کر سکتے ہیں ، اس میں ترمیم نہیں ، آرٹیکل 62 ون ایف میں نااہلی کی مدت کا تعین نہیں ، قانون سازوں نے بھی نااہلی کی مدت کا تعین نہیں کیا ، عدالت آرٹیکل 62 ون ایف میں کوئی اضافہ نہیں کر سکتی۔
یاد رہے کہ آئین كے مذكورہ آرٹیكل كے تحت سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اور پی ٹی آئی رہنما جہانگیر خان ترین كو نااہل كیا گیا تھا۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ 14 فروری 2018 کو آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے اپنے دلائل مکمل کیے تھے جس کے بعد سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت مکمل کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔
وزیراعظم نواز شریف اور تحریک انصاف کے سیکریٹری جنرل جہانگیر ترین کو آئین کی اسی شق یعنی آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہل کیا گیا تھا۔ جس کے بعد اس بحث کا آغاز ہوا کہ آیا سپریم کورٹ کی جانب سے ان افراد کو تاحیات نااہل قرار دیا گیا یا یہ نااہلی کسی مخصوص مدت کے لیے ہے۔ اس شق کی تشریح کے حوالے سے سپریم کورٹ میں 13 مختلف درخواستیں دائر ہوئیں۔
سپریم کورٹ میں یہ درخواستیں دائر کرنے والوں میں وہ اراکینِ اسمبلی بھی شامل ہیں، جنہیں جعلی تعلیمی ڈگریوں کی بنیاد پر نااہل کیا گیا۔ ان درخواستوں میں مطالبہ کیا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کا قانون ختم کر کے اس کی مدت کا تعین کیا جائے۔ تاہم واضح رہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف نے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت کی تشریح کے لیے عدالتی کارروائی میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا اور 6 فروری کو عدالت عظمیٰ میں جمع کروائے گئے اپنے جواب میں نواز شریف نے موقف اختیار کیا تھا کہ کئی متاثرہ فریق عدالت کے روبرو ہیں، وہ ان کے مقدمے کو متاثر نہیں کرنا چاہتے۔
تفصیلی فیصلہ پڑھیں: