گیس کے واجب الادا 80 ارب لوٹائے بغیر کے الیکٹرک شیئرز کی فروخت روکنے کا فیصلہ

Last Updated On 23 April,2018 09:24 am

کراچی: (رپورٹ: نادر خان) سوئی سدرن گیس کمپنی اور کے الیکٹرک کی ملی بھگت سے 80 ارب روپے ڈوبنے کا خدشہ ہو گیا، وفاقی تحقیقاتی ادارے نے کے الیکٹرک میں ابراج کیپٹل کے شیئرز فروخت ہونے پر سوئی سدرن گیس کمپنی اور کے الیکٹرک کے اعلیٰ افسران کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

نیچرل گیس ایلوکیشن پالیسی کے برخلاف بغیر معاہدے کے ایس ایس جی سی نے کے الیکٹرک کو گیس کی فراہمی جاری رکھی، کے الیکٹرک نے عدالت میں بھی غلط بیانی سے حکم امتناع حاصل کیا۔ 2012 ء میں کے الیکٹرک میں بطور چیف فنانس افسر (سی ایف او) رہنے والے امین راجپوت کے سوئی سدرن گیس میں منیجنگ ڈائریکٹر (ایم ڈی) تعینات ہونے پر بھی سوالیہ نشان لگ گیا، اوگرا اور نیپرا نے بھی حکومتی خزانے کو اربوں کا نقصان پہنچائے جانے کے باوجود خاموشی اختیار رکھی۔ وفاقی تحقیقاتی ادارے میں اے کٹیگری کی انکوائری شروع ہونے پر حکومت نے سیکریٹری پٹرولیم، سیکریٹری فنانس اور ڈی جی ایف آئی اے پر مشتمل کمیٹی تشکیل دے دی۔

تفصیلات کے مطابق سابقہ کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کے حکومت کے ماتحت رہنے کے دوران دسمبر 2004 ء سے نومبر 2005 ء کے دوران سوئی سدر ن گیس کمپنی کو ایک ارب کی ادائیگی کرنا تھی، تاہم 29 نومبر 2005 ء کو کے ای ایس سی کے شیئرز آل جامع نامی کمپنی نے حاصل کر کے اسے اپنی تحویل میں لے لیا، جس کے بعد حکومت نے سوئی سدرن گیس کمپنی کی طرف واجب ایک ارب روپے کی رقم ادا کرنے کے لیے اس مالیت کے شیئرز آل جامع کمپنی کی انتظامیہ کے حوالے کیے تاکہ سوئی گیس کمپنی کو یہ شیئرز ادا کر کے واجبات کو کلیئر کرایا جا سکے ، تاہم آل جامع کی انتظامیہ نے یہ ادائیگی نہیں کی اور اس دوران حکومت نے نیچرل گیس آلوکیشن پالیسی 2005 ء کا اعلان کیا، جس کے مطابق کسی بھی پاور سیکٹر کو گیس کی فراہمی کے لیے جنرل سیل ایگریمنٹ (جی ایس اے ) کا ہونا ضروری ہے ، تاہم اس پر عمل درآمد نہیں ہوا اور دسمبر 2005 ء سے ستمبر 2008 ء کے درمیان سوئی گیس کمپنی کے واجبات 12 ارب تک پہنچ گئے اور اس دوران ستمبر 2008 ء میں کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن (کے ای ایس سی) کے زیادہ شیئرز ابراج کیپٹل نے خرید لیے اور ادارے کی انتظامیہ اپنے ماتحت کر لی، یوں کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن (کے ای ایس سی) کو کے الیکٹرک میں تبدیل کر دیا گیا، تاہم حکومت کی جانب سے بنائی گئی پالیسی پر عمل درآمد نہیں کیا گیا اور خلاف ضابطہ سوئی سدرن گیس کمپنی سے بن قاسم پر قائم 5 پاور جنریشن پلانٹس کے لیے بغیر سیل ایگریمنٹ گیس حاصل کی جاتی رہی۔

2012 ء میں یہ واجبات سوئی سدرن گیس کمپنی کی سالانہ رپورٹ کے مطابق 65 ارب کے لگ بھگ پہنچ گئے ، جب کہ کے الیکٹرک کی سالانہ رپورٹ میں یہ واجبات 56 ارب روپے ظاہر کیے گئے ، اس دوران سوئی سدرن گیس کمپنی نے پاور پلانٹس کو گیس کی فراہمی بند کی اور کے الیکٹرک سے واجبات کی ادائیگی کا مطالبہ کیا تو کے الیکٹرک کی انتظامیہ نے واجبات کی ادائیگی اور معاملات کو درست کرنے کے بجائے عدالت سے حکم امتناع حاصل کر لیا، جس کے جواب میں سوئی سدرن گیس کمپنی نے بھی کے الیکٹرک کی انتظامیہ کے خلاف قانونی کارروائی کے لیے عدالت سے رجوع کیا، جس پر عدالت نے دونوں فریقین کو معاملات عدالت سے باہر حل کرنے کی ہدایت کی، تاہم پھر بھی کے الیکٹرک کی جانب سے حکومتی پالیسی کے برخلاف گیس حاصل کرنے کے لیے کوئی سیل ایگریمنٹ تیار نہیں کیا گیا اور دونوں اداروں کے اعلیٰ حکام کے درمیان زبانی طے ہوا کہ اگر مقدار کے مطابق 190 ملین کیوبک فٹ پر ڈے (ایم ایم سی ایف ڈی) گیس کی سپلائی جاری رہی تو کے الیکٹرک رقم کی ادائیگی کرتی رہے گی، لیکن یہ ادائیگی اس مہینے کی ہی تصور کی جائے گی سابقہ ادائیگیوں کا معاملہ بعد میں دیکھا جائے گا اور یہ سابقہ ادائیگیاں لیٹ پے منٹ سرچارج (ایل پی ایس) کی شکل میں مارچ 2018 ء تک 80 ارب تک پہنچ گئیں۔ ذرائع نے بتایا کہ گزشتہ برس وفاقی تحقیقاتی ادارے میں قومی خزانے کو نقصان پہنچانے پر اے کیٹگری کی تحقیقات شروع ہوئی اور اس حوالے سے جب وفاقی ادارے کو علم ہو ا کہ ابراج کیپٹل اپنے شیئرز شنگھائی الیکٹرک پاور کو فروخت کرنے کے لیے تیار ہوگیا ہے تو وفاقی تحقیقاتی ادارے نے لیٹر نمبر FIA/DSK/ENQ-16/2017/CCCK/B-A-269 کے ذریعے سوئی سدرن گیس کمپنی اور کے الیکٹرک کو آگاہ کیا کہ کیسے واجبات کی عدم ادائیگی کے بغیر ابراج کیپٹل اپنے شیئرز فروخت کر سکتا ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ وفاقی ادارے کی اے کیٹگری کی انکوائری میں انکشاف ہوا ہے کہ ابراج کیپٹل مین آئس لینڈ (CAYMAN ISLAND) پر رجسٹرڈ ہے جو ایک ٹیکس فری زون ہے کیوں کہ ابراج کیپٹل اور شنگھائی الیکٹرک پاور کے درمیان شیئرز کی فروخت کا معاہدہ ملک سے باہر ہو گا، اس لیے اگر شیئرز فروخت ہوئے تو نئی آنے والی کمپنی سوئی سدرن گیس کے واجبات ادا کرنے کی پابند نہیں ہو گی، جس سے حکومتی خزانے کے تاحال 80 ارب روپے ڈوبنے کا خدشہ ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے کی نشاندہی پر سوئی سدرن گیس کمپنی نے شنگھائی الیکٹرک پاور کو ایک خط کے ذریعے آگاہ کر دیا اور اس کی کاپی وزیر اعظم سیکریٹریٹ، نیپرا، چیئرمین اوگرا، کے الیکٹرک کے چیف ایگزیکٹو، سینٹرل ڈیپازٹری کمپنی (سی ڈی سی)، چیئرمین نیب، چیئرمین پاکستان اسٹاک ایکسچینج لمیٹڈ، چیئرمین سیکیورٹریز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان، ڈائریکٹر جنرل گیس، چیئرمین پرائیوٹائزیشن ،سیکریٹری فنانس ،سیکریٹری واٹر اینڈ پاور اور سیکریٹری پٹرولیم اینڈ نیچرل ریسورس کو بھی ارسال کر دی۔ ذرائع نے بتایا کہ دوران تحقیقات 2012 ء میں کے الیکٹرک میں بطور چیف فنانس افسر (سی ایف او) تعینات رہنے والے امین راجپوت کے سوئی سدرن گیس کمپنی میں بطور منیجنگ ڈائریکٹر ( ایم ڈی ) تعینات ہونے پر بھی کئی سوالات اٹھ گئے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے نے دونوں اداروں کے اعلیٰ حکام کو پیغام دے دیا ہے کہ اگر سرکاری واجبات کی عدم ادائیگی کے بغیر کے الیکٹرک کے شیئرز فروخت ہونے کا سلسلہ شروع ہوا تو دونوں اداروں کے اعلیٰ حکام کے خلاف مقدمہ درج کر کے قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔